آپ کا بچہ خوف زدہ رہتا ہے
: عابد چوہدری
*آپ کا بچہ خوف زدہ رہتا ہے* ؟
’’اگر آپ اپنے بچے کو اس طرح پروان چڑھائیں کہ وہ بڑا ہوکر جو کرنا چاہتا ہے، اسے کرنے کی جرات رکھتا ہو تو وہ اپنے بچوں میں بھی یہی احساس پیدا کرے گا؛یوں، آپ اپنی نسلوں کو بہت بڑا تحفہ دیں گے !‘‘(برائن ٹریسی)
دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی خوف میں مبتلا ہوتا ہے، لیکن سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ زیادہ تر لوگ حقیقی خوف کی بجائے فرضی خوفوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ آدمی جوں جوں بڑا ہوتا جاتا ہے، اس کی خوفوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ یعنی عمر کم ہوتی ہے تو عموماً خوف بھی کم ہوتے ہیں۔ پیدائشی طور پر، بچے میں صرف دو خوف پائے جاتے ہیں:
بلندی کا خوف
بلند آواز کا خوف
یہ دونوں خوف اس لیے اللہ تعالیٰ نے رکھے ہیں کہ یہ انسان کی بقا کیلئے ضروری ہیں۔ چھوٹے بچے کو گود میں لیں اور اسے کھڑے ہوکر نیچے کو گرانے لگیں تو ننھے سے ننھا بچہ بھی آپ کے کپڑے پکڑ لے گا تاکہ گر نہ جائے۔ ایسے ہی اگر بچے کے کانوں میں بلند آواز آجائے تو وہ ایک دَم گھبراجائے گا اور ہوسکتا ہے، رونے بھی لگے۔
ان درج بالا دو خوفوں کے سوا باقی تمام خوف بچے کے ماحول سے پیدا ہوتے ہیں جو اُس کے والدین، اساتذہ، رشتے دار وغیرہ ے تشکیل دیتے ہیں۔
عام طور پر، بچوں میں بڑے ہوکر خوف پیدا ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بچے کو بچپن میں بھوت پریت سے ڈرایا جاتا ہے۔ بعض والدین بچوں سے کام نکلوانے کیلئے پولیس سے بھی خواہ مخواہ ڈراتے ہیں۔ بچپن کے یہ ڈر بچے کی شخصیت میں پیوست ہوجاتے ہیں اور پھر تمام زندگی اُس کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ اصول کبھی نہ بھولیے کہ بچے کے اندر غیر ضروری خوف اس کی نفسیات کو تباہ کردیتا ہے۔
’’عاقل وہ ہے جو لوگوں کے خوف کے بغیر محض خوفِ خدا سے گناہ سے گناہ سے شرم رکھے اور عبادتِ خدا کو خواہش دل کے ساتھ کرے۔‘‘ (بوعلی سینا)
ہمیں اللہ تعالیٰ سے امید رکھنی چاہیے کیوں کہ اللہ تعالیٰ ہی بہترین سہارا ہے۔ بچے کو یہ بات سمجھانے کیلئے عملی مثال پیش کیجیے۔ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کریں۔ یوں، سارے خوف ختم ہوسکتے ہیں۔
خوف اور رحمت
بچے کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعارف کرانے کیلئے توازن بہت ضروری ہے۔ عیسائی اپنے بچوں کو خدا کی صرف محبت کی بات کرتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں اس کے ردِعمل میں اللہ کا صرف خوف اور ڈر بٹھایا جاتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں انتہائی ہیں، جو توازن سے ہٹ کر ہیں۔ یاد رکھیے، صرف محبت آدمی کو خدا کے مقابلے میں جری کردیتی ہے جبکہ صرف خوف آدمی کو مایوسی میں مبتلا کردیتا ہے۔
ہمیں اپنے بچوں سے اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کے خوف... دونوں کا تذکرہ کرنا چاہیے۔ یہی اسلام ہے۔ اس میں توازن ہے۔ محبت اور خوف کے درمیان یہ توازن بچے کی روحانی اور مذہبی شخصیت میں توازن بھی پیدا کرتا ہے۔
بعض والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ڈرنے والے بچوں کے اندر کوئی خامی یا خرابی ہے یا وہ خود بچوں کی تربیت درست نہیں کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ مختلف عمر کے بچوں میں مختلف خوف آوارد ہوتے ہیں۔ اگر بچہ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ مختلف مرحلوں کے خوف سے گزرتا چلا جائے تو اس سے پریشان ہونے کی بجائے اطمینان کا اظہار کرنا چاہی، کیوں کہ یہ فطری مراحل ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر والدین کا ردِعمل عجیب و غریب ہوتا ہے، لہٰذا جب بچہ ڈراؤنے خواب دیکھنے لگے تو وہ اس کو جنوں بھوٹوں اور چڑیلوں کی کارستانی سمجھتے ہیں۔ ان کو یہ بھی خیال آتا ہے کہ کسی نے بچے پر جادو کردیا ہے یا کوئی تعویذ گنڈے کا مسئلہ ہے۔ یہ سب ایمان کی کمزوری کی علامت ہے،۔ اس طرح، بچے کے دل میں بھی اللہ کے قادر ہونے کا یقین نہیں بیٹھتا اور وہ ساری زندگی لاتعداد بے معنی خوف لیے پھرتا ہے۔
مشہور ماہر نفسیات پال ہاک کے مطابق، خوف سے نمٹنے کے حوالے سے ان باتوں کو ضرور مدِنظر رکھیے:
1 جب بچے کو کبھی تمسخر کا نشانہ مت بنائیے اورنہ ہی اس کو بزدل یا ڈرپوک جیسے القابات دیں، کیونکہ اس سے بچے کااپنے بارے میں تصور خراب ہوتا ہے اور وہ ساری زندگی ڈر ڈر کر گزارے گا۔
2 بچے کو خوف چھپانے پر مجبور نہ کیجیے۔ اگر آپ خوف زدہ بچے کا مذاق اڑائیں گے تو وہ خوف چھپائے گا۔ خوف چھپانے سے خوف کبھی ختم نہیں ہونے کا۔ خوف چھپانا ایک غیر معقول طریقہ ہے۔
3 بچے کو یکے بعد دیگرے ان کاموں میں مت ڈالیے جن سے وہ خوف زدہ ہے، کیوں کہ ایسا کرنے سے بچے پر دباؤ بڑھے گا اور اس کے خوف برقرار رہیں گے۔
4 بچے کو بہادر بنانے کیلئے بے چین نہ رہیے۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ بعض خوف وقت کے ساتھ خود ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اندھیرے کا خوف بچپن میں ہوتا ہے، لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتا ہے۔
5 یاد رکھیے، بچے کو مدد کی سب سے زیادہ ضرورت تب ہوتی ہے، جب وہ خوف زدہ ہوں یا ناکام ہوجائیں۔ خوف سے نمٹنے کیلئے کبھی بھی بچے کو اکیلا نہ چھوڑیے۔ اس کی حوصلہ افزائی کیجیے۔
6 بچوں کو ایسے افراد کی کہانیاں سنائیے جنھوں نے اپنے خوف اور ناکامیوں پر قابو پاکر بڑا نام بنایا۔ اس طرح بچوں کا یہ یقین بڑھتا ہے کہ خوف یا ناکامی کوئی ایسی شے نہیں کہ جس پر قابو نہ پایا جاسکے۔
7 بچہ جن کاموں سے ڈرتا ہے، ان سے بچنے کی بجائے اسے ان کا سامنا کرنے دیں۔ یوں بھی خوف ختم کرنے میں مدد ملتی ہے۔