بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما
: یوسف الماس
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ان میں سے ہر نعمت اپنی جگہ بہت اہم ہے ۔ ان لاتعداد نعمتوں میں اولاد کی نعمت سب سے اہم ہے۔ انسان ہر چیز داؤ پر لگا کر ہر ممکن سہولت اپنے بچوں کو دیتا ہے۔ ان میں سے ہر سہولت بچوں کے لیے جسمانی راحت کا سامان بنتی ہے۔ یہ تو خیر الگ موضوع ہے کہ جسمانی راحت زیادہ اہم ہے یا کوئی دوسری راحت لیکن ہوتا ایسا ہی ہے ۔ چونکہ ہر فرد اپنے بچوں کی جسمانی رحت کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے لہٰذا آج اسی حوالے سے ہی کچھ اہم نکات زیر بحث آئیں گے۔
میں اس بات پر مکمل یکسو ہوں کہ ذہنی اور جسمانی نشوونما میں کوئی بھی ایک دوسرے سے کم اہم نہیں ۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی کمزور رہے گی تو بچے کی شخصیت میں کمی رہ جائے گی۔ جہاں بچے کو فر فر ذہانت دکھانی چاہیے ، وہیں اسے سمارٹ بھی نظر آنا چاہیے، جاذب نظر ہونا چاہیے، اللہ نے خوبصورت بنایا ہے تو اس کی حفاظت ہونی چاہیے۔ اس کی صفائی ستھرائی بالکل درست انداز میں کی جانی چاہیے۔ سستی کی علامت نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہر دم متحرک ہونا چاہیے۔ اٹھنے بیٹھنے کے انداز سے والدین کی تربیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے فنکشن میں آنے جانے اور ملنے ملانے سے ایک بھرپور اور بااعتماد شخصیت نظر آنی چاہیے۔
بچے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اپنے والدین کو فوکس کرتے ہیں۔ ان کو آئیڈیل بناتے ہیں۔ جب والدین ان کی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تب وہ ہر دوسرے فرد کو جو انہیں ایکٹیو نظر آئے گا اور جاذب نظر ہوگا ، اسے رہنما بنا لیں گے۔ جب یہ بھی نہ ہو تو پھر بغیر سوچے سمجھے چل پڑتے ہیں ۔ اس میں بچوں کا قصور کم اور والدین کا زیادہ ہوتا ہے ۔
چونکہ والدین کا یہ پہلو بہت اہم ہے اور حساس بھی ہے۔ آج کی نشست میں میرا ہدف یہ ہے کہ چند ایسے نکات اور حوالے سامنے لائے جائیں جن پر توجہ دینے سے ہم اپنی بھی بہتری کا سامان کریں اور بچوں کی تربیت کا بھی۔ لیکن اس سے پہلے ہم اپنے دائیں بائیں ماحول پر نظر ڈالتے ہیں ۔
چھوٹا سا کریانہ سٹور ہو یا کسی بڑے مال میں بڑا سا ڈیپارٹمنٹل سٹور ، ہر جگہ بچوں کے لیے کھانے پینے کا سامان بڑی نمایاں جگہ پر انتہائی خوشنما انداز میں رکھا ہوتا ہے۔ جنک فوڈ کی فہرست تیار کی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہم اپنے ہاتھوں پیسے دے کر اپنے بچوں کو کیا کھلا رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں بچوں کی صحت اور جسمانی نشوونما پر کیا برے اثرات پڑ رہے ہیں ، اس جانب ہماری توجہ ہی نہیں بلکہ زیادہ درست یہ ہے کہ ہمیں احساس بھی نہیں ۔
میڈیا آج کے دور کی ایک زندہ حقیقت ہے۔ اس نے معاشرے کے ہر گھر میں نقب زنی کی ہے اور شدید طریقے سے معاشرے کو متاثر کیا ہے۔ ہر چینل پر پیش ہونے والا بیشتر مواد 10 سے 20 سال کے بچوں کو ٹارگٹ کر رہا ہے اور دوسری ترجیح 20 سے 30 سال کے نوجوان ہیں ۔ اشتہارات کا مواد اس کے علاوہ ہے ۔ ان سب کا ہدف طلبہ و طالبات اور نوجوان ہی ہیں۔
جہاں ہر والد اور والدہ بچوں کے لیےنہ صرف ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں بلکہ واقعتا قربانی دیتے ہیں ۔ وہیں کچھ اور کام اس سے بھی زیادہ اہم ہیں ۔ جو بچے کی شخصیت کے بننے اور سنورنے میں بہت ہی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کچھ پہلو آج اختصار کے ساتھ زیر بحث آئیں گے اور کچھ آئیندہ۔
الفاظ رہنما ہوتے ہیں
بچوں کے لیے والدین کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ مکمل رہنماکی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اپنی ظاہری ادائیگی میں بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔ والدین اگر اپنی جسمانی حالت کے بارے میں طرح طرح کے تبصرے کریں گے تو یہی الفاظ بچوں کے لیے بھی ذخیرہ بنتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر والدین اپنے بارے میں مثبت تبصرے کریں اور عملاً اپنی حالت کو بہتر بھی رکھیں تو اس کا زیادہ فائدہ ہوگا ۔ یاد رکھنا چاہیے کہ بچوں کے اصل تربیت کار بھی والدین ہیں اور رہنما بھی ۔
سوشل دائرہ
والدین کا سوشل دائرہ بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ان پر بلا تکلف باتیں بھی ہوتی ہیں۔ اس کو روکنا تقریبًا ناممکن ہے لیکن یہ تو کیا جاسکتا ہے کہ ان افراد کی ظاہری یا جسمانی حالت پر بات نہ کی جائے بلکہ ان کی اخلاقی حالت پر بات کی جائے۔ مثلا فلاں بہت اچھا ہے، فلاں بہت ذہین ہے، محنتی ہے ، ایماندار ہے ، یا اس کے برعکس ہے۔
کھانے کا ذوق
والدین کا کھانے کا ذوق بچوں پر براہ راست اثرانداز ہوتا ہے۔ یہ ذوق جتنا اعلی و ارفع ہوگا اپنے ہی بچوں کی جسمانی نشوونما اور تربیت میں فائدہ مند ہوگا۔ مشاہدے کی بات ہے کہ والدین خود جنک فوڈ سے پرہیز نہیں کرتے تو بچوں کو کیسے بچا سکتے ہیں ۔ کھانا بھی صحت مند ہو اور جگہ بھی۔ کھانا گھر میں ہو یا باہر مگر ان دونوں باتوں کو خیال رکھیں۔
میڈیا کے اثرات
آج کےد ور میں میڈیا سے مکمل بچنا تقریباً ناممکن ہے ۔ میڈیا میں دو طرح کا مواد پیش کیا جاتا ہے۔ ایک اصل مواد اور دوسرا اشتہارات۔ دونوں میں ان افراد پر توجہ دیں اور بچوں کو بھی بتائیں کہ یہ دیکھیں فلاں کتنا اچھا ہے اس کے الفاظ، انداز، ادائیگی، جسمانی فٹنس وغیرہ۔ دوسروں کو نظر انداز کریں ۔
سکرین ٹائم
سکرین ٹائم سے مراد صرف ٹی وی نہیں ہے بلکہ کمپیوٹر، سمارٹ فون، ٹیبلٹ وغیرہ یہ سب اس میں شامل ہے۔ ایف اے / ایف ایس سی تک کے بچوں کا یہ وقت لازما مکمل کنٹرول ہونا چاہیے۔ والدین میں سے کوئی ایک پاس موجود ہو۔ ان سب چیزوں کے لیے وقت کا مقرر ہونا ضروری ہے ۔ اس لیے کہ کسی بھی نوعیت کی اسکرین کے سامنے زیادہ دیر بیٹھنا بھی ٹھیک نہیں اور اس پر نظریں لگانا بھی اچھا نہیں۔