گریجویٹس ... توقعات اور حقائق
: عاصم ندیم
اعلیٰ تعلیم اور پھر اچھی جاب ،ذاتی کاروبار یا ریسرچ یونیورسٹی جانے والے ہر طالب علم کا خواب ہے۔ طالب علم ہی کیا والدین اور اساتذہ کی بھی بہت سی توقعات طلبہ و طالبات سے وابستہ ہوتی ہیں ۔ البتہ اگر یہ توقعات حقیقت سے بہت بڑھ جائیں تو طلبہ وطالبات، والدین اور اساتذہ سب کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں مناسب یہی ہے کہ طلبہ و طالبات جاب ،ذاتی کاروبار یا ریسرچ کے حوالے سے درکار معلومات کے لیے اُن افراد سے رہنمائی لیں جو عملی طور پر اِ ن میدانوں میں کام کر رہے ہوں۔ زیرِ نظر مضمون بھی اِس نقطہ ِ نطر سے لکھا گیا ہے۔ مضمون میں پہلے توقعات ، پھر حقائق اور آخر میں طلبہ و طالبات کے کرنے کے کام دیئے گئے ہیں۔
توقعات:
والدین کی توقعات:
جب بچے بڑے ہوجائیں اور یونیورسٹی میں داخلہ لے لیں تو والدین کی اُن سے توقعات بہت بڑھ جاتی ہیں۔ ایسے اکثر والدین کی خواہش ہو تی ہے کہ اُن کی اولاد وہ کام کر دکھائے جو وہ ہ خود نہ کر سکے۔
یونیورسٹی اساتذہ اور توقعات:
اکثر یونیورسٹیاں طلبہ و طالبات کے سامنے اپنے تعلیمی پروگرام اور ڈگری کی اہمیت بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہیں ۔ یونیورسٹیوں کے اِس رویّے کی وجہ طلبہ و طالبات کی جاب کے حوالے سے توقعات بہت بڑھ جاتی ہیں۔ طلبہ و طالبات سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی سے نکلتے ہی جاب اُن کی منتظر ہو گی۔
موٹیویشنل اسپیکرز اور توقعات:
موٹیویشنل اسپیکرز اپنی ورکشاپس میں اور سوشل میڈیا کے ذریعے کامیابی کی وہ مثالیں دے رہے ہوتے ہیں جو یاتو مغربی معاشرے سے تعلق رکھتی ہیں یا ہمارے معاشرے کی کچھ استثنائی صورتوں میں سے ہے۔ اِن مثالوں سے بھی طلبہ و طالبات کی توقعات بڑھ جاتی ہیں۔
حقائق:
اوپر بیان کی گئی توقعات کے بر عکس جاب یا کاروبار کے حوالے سے حقائق کچھ یوں ہیں :
(الف) ایک ترقی پذیر ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں جاب کے مواقع مجموعی طور پر کم ہیں۔
(ب) اچھی جاب کے لیے اپنے مضمون پر عبور ہی کافی نہیں ، مضمون کا عملی استعمال بھی آنا چاہیے۔ یہ استعمال اکثر گریجویٹس نہیں جانتے۔
(ج) اچھی جاب کے لیےسوفٹ اسکلز بھی درکار ہیں اور اِن مہارتوں پر کسی نے کوئی کام نہیں کی ہوتا بشمول طلبہ و طالبات ، والدین اور اساتذہ ۔
(د) آپ ذاتی کاروبار کر نا چاہتے ہیں لیکن والدین کی توقعات تو کچھ بڑا کرنے کی ہیں، پیسہ ہو نا چاہیے ، اسٹیٹس بھی کو ئی شے ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر رشتہ داروں کو بھی تو منھ دکھانا ہو تا ہے۔ایسے میں کیا کرنا ہے ،یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے ۔
(ر) آپ کے ذاتی کاروبار شروع کرتے ہی لوکل گورنمنٹ والے آئیں گے کہ ٹریڈ لائسنس بنوائیں ، یہ ٹیکس ادا کریں وہ ٹیکس ادا کریں۔ پھر آپ کا کاروبار ذرا بڑھا تو لیبر لا، سوشل ویلفیئر ،محکمہ ٹیکس اور ایسے ہی دیگر محکمہ جات آئیں گے ۔قانون کی اہمیت اپنی جگہ لیکن صدی پرانے قانون اور سرکاری اہلکاروں کا رویّٗہ آپ کے لیے شدید ذہنی کوفت کا ذریعہ بنے گا۔ اور یہ باتیں اَنٹرا پری نیورشپ پر ٹریننگ کروانے والے کوئی صاحب یا صاحبہ آپ کو نہ بتائیں گے۔
(س) آپ ایڈیسن کے طرح نِت نئی ایجادات کرنا چاہتے ہیں یا بِلگیٹس بننا چاہتے ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ :کتنے سرکاری اداروں ، آرگنائزیشنز اور کاروباری فرمز میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کا شعبہ قائم ہے؟ ریسرچ کے مواقع کتنے ہیں؟ ریسرچ جاب کے لیے امیدواران میں مقابلہ کیسا ہے ؟ اور سفارش کا کیا رجحان ہے؟ مزید یہ کہ آپ خود کوئی ریسرچ کرنا چاہتے ہیں تو آپ کی اپنی آمدن کے ذرائع کیا ہوں گے؟ ریسرچ کے مالی اخراجات کون اٹھائے گا ؟ ریسرچ کا خریدار کون ہو گا؟ اور یہ کہ اگر آپ کو گریجویشن کے فوراً بعد والد کا آمدن میں ہاتھ بٹانا ہے تو ریسرچ کا وقت کب نکلے گا؟
کرنے کے کام
آپ جس جاب ، کاروبار یا ریسرچ کے خواہش مند ہیں وہ جاب کرنے والوں سے اُس جاب کے اسکوپ اور اُس میں درپیش چیلنجز کے بارے میں جانیں۔ اگر آپ اپنا کاروبار کرنا چاہتے ہیں تو اُس کاروبار سے وابستہ افراد سے اُس کاروبار کی تمام معلومات لیں۔ کچھ یہی معاملہ ایجادات میں دلچسپی رکھنے والوں کا ہے۔ یاد رہے کہ والدین ، اساتذہ اور موٹی ویشنلاسپیکرز کا احترام اپنی جگہ لیکن عملی زندگی کی رہنمائی میں زمینی حقائق کو مدِّ نظر رکھیں اور عملی زندگی سے وابستہ افراد سے ہی یہ رہنمائی حاصل کریں اور اِس عمل میں کسی قسم کی جذباتی باتوں سے پرہیز کریں۔