اسکول میرے بچے کا
: یوسف الماس
میرا بیٹا بہت شارپ ہے۔ میرا بیٹا تو ہر کلاس میں ہائی اسکور کرتا آیا ہے۔ میرا بیٹا تو بہت ہی تخلیقی Creative ہے۔ آج کل کی روٹ لرننگ تو بچوں کو تباہ کردیتی ہے۔ بچوں کے اسکلز پر توجہ دینی چاہیے۔ میری بیٹی تو کلاس وَن سے ٹاپر ہے۔ میرا بیٹا تو نمبر پورے پورے ہی لیتا ہے لیکن وہ سکول کا بہترین مقرر ہے۔ میری بیٹی بہت باتیں کرنے والی تھی مگر اب بالکل خاموش رہنے لگی ہے۔ میرا بیٹا چائنا وزٹ کے لیے سلیکٹ ہوا ہے۔ میری بیٹی جاپان کے تعلیمی دورے پر گئی ہے۔ میری بہن ساؤتھ افریقہ وزٹ پر گئی ہے، مقابلہ جیتا تھا نا اس نے۔
بچہ قدرے پریشان سا رہتا ہے۔ با ت بے بات الجھتا ہے۔ بیٹے کے نمبر کم آتے ہیں۔ اسکول کی فیس کے علاوہ ہر مضمون کے لیے اضافی انتظام کرنا پڑتا ہے۔ سر! اس نے کلام میں اپنی پوزیشن خراب کرلی ہے۔ میں کلاس ٹیچر سے ملنے گیا، پروفیسر صاحب کو تو بچے کے نام تک نہیں پتا تھا۔ میرے بیٹے کو تو ہر وقت کسی نہ کسی فنکشن کی تیاری کرنا ہوتی ہے۔ بچوں کو نہ تو اردو اخبار پڑھنا آتا ہے اور نہ ہی انگلش نیوزپیپر۔ اس کی ٹیچر کو تو فر فر انگریزی بولنے کے سوا کچھ آتا ہی نہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ جو وہ بولتی ہیں اس میں بھی سینس کافی کم ہوتی ہے۔ اسکولز پتا نہیں کیا کرتے ہیں۔ یہ تو مافیا ہے۔ سپریم کورٹ بھی بے بس نظر آئی۔
یہ سارے وہ جملے ہیں جو والدین نے میرے پاس آکر کہے اور نوٹ رہ گئے۔ اس لیے ان میں ظاہری ربط نہیں۔ البتہ میں نے انہیں اکٹھا کرکے آپ کے سامنے پیش کیا ۔ یہ دو مختلف منظرنامے بن گئے ہیں۔ پہلا کلاس 9 سے پہلے کا ہے اور دوسرا کلاس 9 اور اوپر کی کلاسز کا ہے۔ دونوں منظرناموں میں ہر طرح کے بچے اور ہر طرح کا نظام بھی ہے۔ یعنی میٹرک، لیولز، امریکن، عرب ممالک کے سکولز۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہر ادارہ خراب اور ہرفرد کرپٹ ہے۔ اگر ایسا ہے تو معاشرے کو ختم ہوجانا چاہیے۔ کیا شدید آندھی یا لگاتار موسلادھار بارش اس کا حل ہے۔ نہیں، نہیں، نہیں۔ یہ اس کا حل نہیں ہے۔ اگر اس کا حل یہ ہوتا تو مالک کب کا یہ حل دے چکا ہوتا۔ اس معاشرے میں ابھی بھلائی خاصی موجود ہے۔ نیکی کا چلن بھی خاصا ہے۔ لہٰذا مایوس نہیں ہوں ، یہ تو کفر کا راستہ ہے جو آپ سوچ رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ بھی تو ہے کہ اس معاشرے کو جو صاف اور تازہ خون مل رہا ہے وہ بھی یہیں کے تعلیمی اداروں سے آرہا ہے۔ خرابیوں سے انکار نہیں مگر علاج کچھ اور تجویز کیا جانا چاہیے ۔
ٹیچر بہت آرام سے بات کرتی ہیں۔ بار بار مختلف انداز سے سمجھاتی ہیں۔ میری انگلش ٹیچر کا انداز بہت اچھا ہے۔ پورے چالیس منٹ ٹیچر کلاس میں رہتی ہیں۔ سراقبال تو کتاب بند کروادیتے ہیں اور براہ راست بات کرتے ہیں۔ سر عمار کا لیکچر سننے کے بعد ٹیوشن پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میرے اسکول میں کسی جگہ گند نظر نہیں آتا۔ ہماری ہر ٹیچر خوبصورت لباس پہنتی ہیں۔ والدین کے پاس کلاس ٹیچر کانمبر ہوتا ہے۔ جب چاہیں آجائیں۔ جب چاہیں مل لیں۔ جب چاہیں فون کرلیں۔ یہ سب اس وقت ہوگا جب مضمون کا علم+ تعلیم کا مفہوم+ انسانی نفسیات = استاد ہوگا۔ یہ بھی ایک منظر ہے۔
معاشرہ ہر دم تبدیل ہورہا ہے ۔ حالات اور ضروریات بدل رہی ہیں۔ انداز اور فکر بدل رہے ہیں۔غیر سرکاری دفاتر میں تبدیلی تیز ہے اور سرکار میں سست۔ ہر چیز ٹیکنالوجی سے جڑ گئی ہے۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے قابل لوگ بیٹھےہوتے ہیں مگر ٹیکنالوجی کا خلل ان کے دماغ کا خلل بن جاتا ہے۔ مقابلے کی فضا ہر روز تیز ہورہی ہے۔ اس منظر نامے میں رہے گا وہی جو اپنی بنیاد پر مضبوط اور وسعت میں وسعت فکر و نظر سے لیکر وسعت عمل تک پھیلا ہو گا۔ مختلف شعبوں میں آگے جانے والے یہیں کے اسکولز اور کالجز سے نکلے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے اسکالرشپ حاصل کرنےوالے انہی اداروں سے نکلے ہیں۔ یہ بھی ایک منظرنامہ ہے اور یہیں کا ہے۔
آخری بات یہ کہ میں آپ کو 20 خصوصیات کی فہرست دیتا ہوں۔ کیسے چیک کریں گے۔ آپ کے پاس وقت نہیں۔ آپ کی ترجیحات میں نہیں۔ آپ کا شعبہ نہیں۔کیسے ان مسائل کو سمجھ سکیں گے۔ آپ بس ایک کام کریں ۔ ادارے کی مجموعی صورتحال کو سمجھ لیں۔ ادارے کی کسی پوزیشن کو نہ دیکھیں۔ صرف پاس ہونے والوں کی تعداد بھی نہیں چاہیے ۔ ادارے کا مکمل رزلٹ دیکھیں ۔ اس لیے کہ وہ بتائے گا کہ اسکول یا کالج کا منظر نامہ کیسا ہے ، حقیقی ماحول کیا ہے اور اس کا لیول کیا ہے۔ اس سے آپ کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوجائے گا۔
پاکستان کے کسی بھی اسکول یا کالج کا تفصیلی رزلٹ حاصل کرنے کے لیے یا کسی بھی ادارے کی پوزیشن سمجھنے کے لیے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں۔
https://www.eduvision.edu.pk/ranking/