تحریر،، فرحان ظفر
انتخاب،، عابد چودھری
آپ کے بچے کو کسی رشتے دار کے گھر ڈانٹ پڑتی ہے تو آپ کس کو الزام دیں گے، بچے کو یا رشتہ دار کو؟
آپ کے بچے کو چوٹ لگ گئی ہے تو آپ کیا کریں گے، فوراً پیار کر کے تسلیاں دینا شروع کردیں گے یا تھوڑا رک کر اسے اپنی غلطی سے سیکھنے کا موقع دیں گے؟
اپنے گھر کا ماحول آپ بچوں کے لحاظ سے بنائیں گے یا 'کسی بڑے مقصد' کے مطابق؟
آپ اپنے بچوں کی نظروں میں 'بہترین دوست' ہیں یا 'بہترین والدین؟
بیشتر والدین کا جواب ایسے مسائل اور معاملات میں عموماً بچوں کو تحفظ وخوشی دینے والا اور اپنا تاثر 'خوشگوار' رکھنے والا ہوتا ہے، ہر ماں، باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی 'فوری و عارضی' خوشی اور تسکین کے لیے وہ کچھ کر ڈالیں جو ان کے بس میں ہے، یہاں تک کہ بعض اوقات وہ اس چکر میں اپنے آپ کو ہلکان کر ڈالتے ہیں۔
باپ دن رات پیسہ کماکر سمجھتا ہے کہ وہ بچوں کے لیے ہر خوشی خریدنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے، ماں 'دن بھر' مصروف رہ کر یہ خیال کر رہی ہوتی ہے کہ اس نے 'ماں' ہونے کا حق ادا کر دیا۔
والدین کا سارا فوکس بچوں کی موجودہ زندگی کے مسائل، آرام اور جسمانی ترقی پر ہوتا ہے، لانگ ٹرم میں 'خوش کر دینے والی پیرنٹنگ' کے مسائل اور ان کے اثرات پر سوچنا نہ ان کی ترجیح ہوتا ہے اور نہ ہی پسند اور بدقسمتی سے ایسے والدین کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوتا کہ آیا وہ اپنے بچوں کے لیے صحیح والدین کا حق ادا کر بھی رہے ہے یا نہیں؟
ایسے والدین کی غلطیوں کا اندازہ ایک امریکی تحقیق سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں ایسے نوجوان افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو بظاہر ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں، ان کے دوستوں کا بہترین نیٹ ورک ہے، ان کے والدین بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہیں، جن کا کیریئر ٹریک بہت اچھا ہے، ان کی صحت بھی شاندار ہے مگر وہ 'خوش' نہیں یا دوسروں لفظوں میں کہہ لیں کہ زندگی سے مایوس ہیں اور وہ اس کی وجہ بھی نہیں جانتے۔
مذکورہ تحقیق پڑھنے اور ایسے ہی مایوس بچے دیکھنے کے بعد ہر کسی کے ذہن میں ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیوں؟
دنیا کے اس مشکل ترین سوال پر نفسیاتی ماہر پال بوہن کہتے ہیں کہ"کافی والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کو معمولی درجے کی تکلیف، پریشانی اور مایوسی کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بڑے ہونے پر معمولی، معمولی الجھنیں بھی انہیں یہ یقین دلا دیتی ہیں کہ کہیں کچھ بہت بڑی گڑبڑ ہے۔"
مذکورہ سلسلہ وار مضمون میں ہم والدین کی جانب سے کی جانے والی غلطیوں اور ان کے بچوں پر پڑنے والے اثرات پر بات کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے سماج کے والدین کہاں کیا غلطی کر رہے ہیں اور ممکنہ طور پر ان غلطیوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟
*پہلی غلطی - بچوں سے محبت نہیں عقیدت رکھنا ۔*
ہماری سوسائٹی آہستہ آہستہ ایک 'بچوں کے گرد گھومنے' والی سوسائٹی بنتی جا رہی ہے، ہمارے گھروں اور اسکولوں میں بچوں کو بے تحاشا آزادی اور سہولیات دستیاب ہیں، والدین کے لیے یہ بات بہت اہم ہوتی ہے کہ ان کی عنایتوں کے بدلے میں بچے ان پر توجہ اور پیار کی بارش سی کر دیں۔
مگر اس دوران بچے کا اسٹیٹس محبت سے بڑھ کر عقیدت میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے، یہ تبدیلی معصوم ذہنوں کو 'میں، میرا اور مجھے ' کے مائنڈ سیٹ کی طرف لے جاتی ہے۔
اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ –
بچوں کی فرمائشیں مانیں، آزادی دیں، محبت اور نرمی دیں لیکن اس محبت کو عقیدت میں تبدیل نہ کریں۔
*دوسری غلطی - 'میرا بچہ پرفیکٹ ہے' کا یقین -*
بچوں اور والدین کے ساتھ کام کرنے والے کونسلنگ ماہرین کے مطابق اب والدین اپنے بچوں کے بارے میں کوئی تنقیدی بات سننا پسند نہیں کرتے، کبھی بچے کی کمزوری پر بات کرنا پسند نہیں کرتے پھر چاہے وہ خلوص اور محبت کے جذبے سے ہی کیوں نہ ہو اور اگر ایسی کوئی بات کرنی پڑ جائے تو والدین کا رد عمل بہت شدید ہوتا ہے، یاد رکھیں کہ ایک شرارتی اوربگڑے ہوئے بچے کی کونسلنگ کافی موثر ثابت ہو سکتی ہے بجائے ایک بگڑے ہوئے بالغ فرد کے۔
*اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ -*
بچوں میں تبدیل ہونے، بہتر ہونے اور اچھی چیزیں جذب کرنے کی فطری استعداد ہوتی ہے، اس لیے بچوں میں کسی بھی بری عادت اور غلط رویے کے رونما ہونے پر اس کی اصلاح کے لیے فوری کوشش کیجیے کہ قبل اس کے کہ بات آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے۔
*تیسری غلطی* - *بچوں کو اپنا ڈپلیکیٹ بنانے کا خیال -*
والدین بچوں کو اپنا سب سے قابل فخر اثاثہ سمجھتے ہیں، ان کی کامیابی کو اپنی کامیابی اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی کا دوسرا رنگ سمجھتے ہیں، تاہم بچوں کو اپنا ڈپلیکیٹ بنانے کی حد سے زیادہ کوشش میں ہم بھول جاتے ہیں کہ وہ ہم سے الگ ایک انسان بھی ہیں - والدین دراصل بچوں کی نہیں بلکہ اپنی نامکمل خواہشات کی پیچھے بھاگنے لگ جاتے ہیں، یوں اپنی خوشی کو ہم دراصل ان کی خوشی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
*اس غلطی سے بچنے کا ممکنہ طریقہ -*
اپنے آپ کو اس حد تک آئیڈیل بنائیں کہ وہ آپ کے پسندیدہ کام اپنی 'حقیقی پرسنالٹی' کے طور پر، اپنے رنگ ، انداز اور طریقے سے کریں، نہ کہ وہ آپ کو کاپی کرکے زندگی کو آگے بڑھائیں۔