*بچوں_کے_والدین_کے_لیے۔*
تحریر،، کرن سلطان
گزارش ہے کہ اللہ نے آپ کے بچے کو اس کی بہترین فطرت پہ پیدا کیا ہے،اس کی پہچان،خاندان الگ ہے۔
وہ دوسرے بچوں سے اپنی الگ پہچان اور فطرت لیکر پیدا ہوا ہے،دوسرے بچوں کی دیکھا دیکھی اپنے بچے کی فطرت اور پہچان کو مسخ مت کریں۔
فیس بک پہ،کسی دوست سہیلی کے وٹس ایپ سٹیٹس پر،یا خاندان میں کسی تقریب وغیرہ پر کسی رشتے کے بچے کی غیر معمولی حرکات و سکنات دیکھ کر وہ ہی چیز اپنے بچے میں تلاش مت کیا کریں۔
اگر کسی کا بچہ ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں ہی بہت میٹھی پیاری باتیں کرلیتا ہے،تو یہ ہی چیز اپنے بچے میں تلاش کرتے ہلکان مت ہوں،اگر آپ کا بچہ بہت زیادہ باتیں کرکے آپ کو مسرور نہیں کرتا تو ہوسکتا ہے،چھ سات سال کی عمر میں وہ ہی بچہ سکول میں اعلیٰ کارکردگی دکھا کر آپ کو بے حد و حساب خوشی دے۔
اگر آپ کے رشتے دار کا بچہ ابتدائی بچپن میں ہی سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لیتا ہے،تو کم توجہ حاصل کرنے والے اپنے بچے سے مایوس نہ ہوں،ہوسکتا ہے بچپن کے آخری اور لڑکپن کے پہلے دور میں آپ کا بچہ سارے خاندان کی توجہ اپنی کسی سرگرمی سے اپنی طرف مبذول کروا لے۔
چھوٹے بچوں کے والدین دل بڑا کریں،ہر بچہ اپنی جو فطرت لیکر آتا ہے،اسی پہ اس کی اچھی بری تربیت اثر انداز ہوتی ہے۔
ایک بچہ اگر فطرتاً شرارتی، ذہن لیکر پیدا ہوا ہے،تو آپ اس بچے کی تربیت اس انداز میں کریں کہ اس کی شرارتیں شر نہ بنیں خیر بنیں۔
ایک بچہ فطرتاً شریف النفس پیدا ہوا ہے تو آپ اس کی تربیت ایسے ذہن کو مدنظر رکھ کر نہ کریں جو شرارتی ذہن کو رکھ کر کی گئ ہے۔
دیکھا دیکھی تربیت،فیس بک پہ مختلف لوگوں کے تجربات کو اپنے بچے پہ اپلائی مت کریں پہلے اس کی فطرت،اس کی سائیکی کو سمجھیں،دیکھیں کہ وہ کس طرح اور کس انداز کی تربیت کو قبول کرے گا،پھر اس کی تربیت کریں۔
اپنے خاندان،وراثت،ماحول،تہذیب،ثقافت کو مد نظر رکھ کر تربیت کا بیڑا اٹھائیں۔
لاہور کے ڈیفنیس ایریا میں رہنے والی خاتون اولاد کی تربیت کے حوالے سے کوئی بات لکھے،سمجھائے تو سب سے پہلے یہ دیکھیں گاؤں کے ماحول میں آنکھ کھولنے اور پہلی سانس لینے والا آپ کا بچہ اس تربیت کو قبول بھی کرپائے گا یا نہیں؟
جس بچے کے باپ کی ماہانہ سیلری لاکھوں میں ہے اس کی تربیت وہ بچہ قبول کرسکتا ہے جس کے باپ کی روزانہ آمدن پانچ سو روپے ہے؟
تربیت،پرورش اور آموزش کے وقت ماحول،حالات اور واقعات ضرور دیکھیں۔
میں ابھی ایک ماں نہیں ہوں،لیکن میں ایک پھوپھو اور خالہ ضرور ہوں۔
اپنے بھانجوں بھتیجوں کی تربیت میں اپنا حصہ اپنی حیثیت کے مطابق ڈال رہی ہوں،ان کی ادنی سی تربیت کے دوران میں نے یہ تجربہ حاصل کیا ہے کہ ہمارے بچے اپنی فطرت،ماحول میں تربیت کو قبول کرتے ہیں۔
اس سے ہٹ کر جب ہم کچھ کرتے ہیں تو ہمارے بچے دہری شخصیت کا شکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔
اپنے بچوں خواہ وہ بہن بھائیوں کے ہیں یا آپ کے اپنے کی تربیت ان کی فطرت پہ کریں