بچوں کے پیدا کردہ مسائل اور حل
: عاصم ندیم
چھناک ، آواز آتے ہیں لیکچر سننے میں محو کلاس کی نظریں آواز کی سمت اُٹھیں ،شائید کسی کا جیومیٹری باکس گرا تھا۔ ٹیچر نے بھی آواز سُنی اور اسٹوڈنٹ کو جیومیٹری باکساُٹھانے کا اشارہ کیا ۔ اِس دوران لیکچر جاری رہا۔ کلاس کے خاتمے پر ٹیچر نے جیومیٹری والے اسٹوڈنٹ سے کہا مجھے بریک ٹائم ملنا۔ سب اسٹوڈنٹس حیران تھے کہ ٹیچر کوجیومیٹری گرانے والے پر کوئی غصہ نہ آیا اور نا ہی انھوں نے کوئی ڈانٹ پلائی۔
احمد کھانے کے میز کے پاس سے دوڑتے ہوئےگذرا ۔چھناک اور میز کے کنارے رکھا گلاس گر کر ٹوٹا اورفرش پر پانی بکھر گیا"احمد ! گلاس توڑ دیا کیا؟" احمد کی امّیکی آواز آئی۔ "یہ ،یہ ۔ ۔ ۔ ٹوٹ گیا " احمد نے جواب دیا۔ اچھا یہ صافی لو اور احتیاط کے ساتھ سب صاف کر دو۔ پاس بیٹھی احمد کی چچی نے سوچا کہ احمد کی امّی نے اُسے کچھ کیوں نہ کہا؟
ہم اکثر مسائل کا ذکر کرتے ہیں ، حل کا نہیں۔ کلاس میں جیومیٹری گرنے سےسب کی توجہ بٹ جانا ایک مسئلہ تھا۔ اگر ٹیچر جیومیٹری والے طالب علم کو ڈانٹ پلاتی تو کیا سب کی توجہ واپس لیکچر کی طرف آجاتی یا کلاس کے آداب پر نیا لیکچر شروع ہو جاتا؟ ٹیچر نے کمال ہو شیاری سے مسئلہ کا حل پیش کیا نا کہ مسئلہ۔ کچھ یہ معاملہ ماں کا بھی رہا ۔ بچے سے یہ پوچھنے کے بجائے کہ گلاس کیوں توڑا ،ماں نے حل پیش کیا کہ لو فرش صاف کردو۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کلاس میں جیو میٹری گر چکی اور گلاس سے پانی بھی فرش پر بہہ چکا ،اب ڈانٹ سے کیا فائدہ کہ یہ سب کیوں ہوا ، کیسے ہوا؟ اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جو ہونا تھا ہو چکا بس اب مسئلے کا حل پیش کریں۔ اگر سمجھانا ہی مقصود ہے تو بعد میں کسی مناسب موقع پر ایسا کرلیں ۔بے جا ڈانٹ ڈپٹ بچوں کی شخصیت پر تو اثر انداز ہوتی ہی ہے آپ کی اپنی شخصیت کو بھی چڑ چڑا بنا دیتی ہے۔ اگر غور کریں تو ملکی سطح پر بھی ہم مسائل کا اکثر رونا ہی روتے رہتے ہیں اور یہ جو غصہ ناک پر دھرا رہتا ہے یہ بھی تو چڑ چڑے پن کا نتیجہ ہے۔