بی ایس کرنے والوں کےنام
: یوسف الماس
آپ بہترین دعاؤں کے ساتھ خوبصورت مبارکباد کے مستحق ہیں۔
آپ بی ایس کے آخری سال میں ہیں یا بی ایس مکمل کرلیا ہے تب بھی۔ آپ نے اپنے لیے سوشل سائنسز کاکوئی شعبہ لیا تھا یا آپ نے نیچرل سائنسز کو اپنے لیے منتخب کیا یا پھر آپ کی دلچسپی اپلائیڈ سائنسز میں تھی۔
اہم بات یہ ہے کہ آپ نے زندگی کا ایک اہم مرحلہ مکمل کرلیا۔
آپ پاکستان کے کروڑوں نوجوانوں میں سے ایک ہیں جس نے یہ کامیابی حاصل کی ہے۔ آپ اگر اپنے ماضی پر نظر ڈالیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پہلی جماعت سے اب تک کتنے تھے جو آپ کےساتھ تھے مگر کوئی کہیں رہ گیا، کوئی کہیں رک گیا، کسی کو کوئی مجبوری آگئی مگر میرے اللہ نے آپ کو ہمت، توفیق اور استطاعت دی تو آپ نے یہ مرحلہ مکمل کرلیا۔ اس پر آپ یقیناً مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس پر خوش ہونا آپ کا حق ہے اور اللہ کا شکرا دا کرنا آپ پر فرض ہے۔
بی ایس کا آخری سال ہو یا مکمل کرلیا ہو ، اکثر سننے کو ملے گا کہ اب کیا کرنا ہے؟ کس طرح کی جاب ملے گی؟ کیا یہ ایم اے/ ایم ایس سی کے برابر ہے؟ آپ ٹیچنگ کرلیں؟ فلاں آفس میں جاب ہے وغیرہ وغیرہ۔ آپ اگر ان ساری باتوں سے اپنے آپ کو الگ کرکے غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ آپ ابھی 21 سے 23 سال کے درمیان میں ہیں۔ ذہنی اور جسمانی طور پر مکمل تندرست ہیں، آپ کی ایسی کوئی ذمہ داری نہیں جو 30 یا 32 سال کی عمر میں یا اس کے بعد ہوتی ہے۔ آپ سوچیں تو آزادی سے سوچیں گے۔ آپ خطرات میں تجربہ کرنا چاہیں تو بھی آپ اکیلے ہی ہیں ، کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ ہر تجربہ آپ کرسکتےہیں۔
اس میں شک نہیں کہ جاب کا حاصل کرنا یا جاب کا مل جانا بہت اچھی بات ہوگی اور آپ کے والدین کی بھی یہی خواہش ہوگی۔ قدرے پرسکون اور ہموار زندگی بھی کہلائے گی مگر اس موقع پر اگر کچھ اور باتیں سوچی جائیں اور ان پر غور کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کی زندگی اور بہتر ہوجائے۔ زندگی ایک لگے بندھے انداز سے نکل کر متحرک ہوجائے۔ آپ کی کچھ چھپی صلاحیتیں سامنے آجائیں۔ آپ کی شخصیت کے سارے رنگ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ نکھر جائیں۔
انہی دنوں اماں جان کا بھی ایک کام شروع ہوجاتا ہے۔ وہ بھی آتے جاتے، دائیں بائیں نظر رکھنا شروع کردیتی ہیں۔ انہیں بھی ہم پلہ اور برابر کے لوگ اچھے لگتے ہیں۔ وہ بھی دس نہیں بیس خوبیاں تلاش کرتی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مستقبل کے خواب بھی ان کے سامنے سے آتے جاتے رہتے ہیں۔ اپنی گرتی صحت کو بھی نظروںسے بچاتی ہیں کہ انہیں آپ کی شادی دھوم دھام سے کرنی ہے۔ کبھی کبھی گھر میں شور بھی اٹھتا ہے۔ آپ اس کی پرواہ نہیں کریں۔ آپ اپنے کام کی طرف توجہ رکھیں۔ تسلی رکھیں ، آخرکار آپ کے بغیر کچھ ہوگا نہیں۔
زندگی کے ان ایام میں سوچ کی رفتار تو بہت تیز ہوتی ہے۔ دن رات باتیں آتی اور جاتی ہیں مگر ان میں ترتیب کم کم ہوتی ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود سوچ کے عمل کو جاری رہنا چاہیے تاکہ بہتر مقام تک پہنچا جا سکے ۔ آپ کا ساتھ دینے کے لیے میں نے بھی آپ کے لیے کچھ باتیں سوچی ہیں۔ عمر اور تجربہ کی وسعت کے ساتھ خیالات و افکار Ideas کی وسعت بھی میسر آئے گی ۔ میں نے آئیڈیاز کا جو گلدستہ آپ کے لیے تیار کیا ہے آپ اس کے ہر ہر پھول کی خوشبو لیں ضرور۔ اس سے آپ کے اپنے ذہن سے کئی ایک باتیں نکلیں گی، وہی اصل مقصود ہے۔
1.زندگی کے مقاصد
زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو اس بات کا پتہ ہو کہ اس نے زندگی میں کرنا کیا ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ جب تک اس بات کو سمجھا نہ جائے زندگی میں کچھ کرنا یا اس سے لطف انداز ہونا ناممکن ہے۔ بغیر کچھ سوچے اور پلان کیے اگر کوئی شخص زندگی گزار رہا ہے تو وہ اس انسان کی طرح ہے جو ایک اندھیری رات میں ٹھوکریں کھاتا اس امید پر چلا جارہا ہے کہ کہیں نہ کہیں پہنچ جاؤنگا ۔ انجام کا کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہوگا اور راستہ معلوم نہیں۔ جو کوئی اسے جہاں چاہے موڑ دے، جس طرح چاہے چلا لے کیونکہ اس کو خبر ہی نہیں کہ اسے جانا کہاں ہے۔ اس لیے آپ کو چاہیےکہ اپنی زندگی اور اپنے مستقبل کا جائزہ لیں اور اس کو قلم بند کرلیں ۔ اس سے آپ کو اپنے مستقبل کا نقشہ مل جائے گا اور آپ کا مستقبل کے بارے میں ایک واضح نقطہ نظر ہوگا۔
2.بجٹ بنانا
جب کوئی انسان عملی زندگی میں قدم رکھتا ہے تو اسے سب سے بڑی فکر اپنی اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی ہوتی ہے۔ کتنے پیسے آرہے ہیں اور کتنے استعمال ہورہے ہیں۔ وہ دن رات بس اسی کوشش میں ہوتا ہے کہ کیسے اپنی اور اپنے گھروالوں کی ضروریات کو پورا کرنا ہے؟ اگر کوئی فنکشن آرہاہو تو اس میں کیا اور کتنا خرچ کرنا ہے۔ یہ سب حساب کتاب کے بغیر ناممکن ہے۔ جب انسان چھوٹا ہوتا ہے تو وہ کھلے دل سے ہر جگہ پیسہ لگادیتا ہے مگر جب وہ بڑا ہوتا ہے تو اپنے خون پسینے کی کمائی کو سوچ سمجھ کر صرف صحیح کام میں استعمال کرتا ہے۔ اگر آپ کو اپنی آمدنی کا بجٹ بنانے کی عادت ہو تو یہ کام بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ورنہ انسان ہر وقت ٹینشن کا ہی شکار رہتا ہے۔ بی ایس کے بعد فارغ وقت میں اپنے آپ کو اس انمول عادت کا عادی بنانا ، بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ آپ کو کئی پریشانیوں سے بچا سکتی ہے جو آنے والا وقت اپنے ساتھ لاتا ہے۔
3.بچت کرنا
بچت۔ یہ لفظ آپ نے سنا ہوگا اور یہ بھی سنا ہوگا کہ بچت کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ضروریات کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔ یاد رکھیے کہ بچت کبھی زیادہ رقم کی صورت میں نہیں کی جاتی بلکہ یہ تو اس دریا کی مانند ہوتی ہے جس کو آہستہ آہستہ بہت سارے قطرے مل کر بناتےہیں اور جب یہ دریا بن جاتا ہے تو یہ مختلف فصلوں کو سیراب کرتا ہے۔ کبھی لاکھوں گھروں کے لیے بجلی کا ذریعہ بنتا ہے۔ آہستہ آہستہ بچت کرتے ہوئے آپ اپنا گھر بنانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ کو اس بات کو پڑھ کر یہ لگ رہا ہے کہ میں نے بہت دیر کردی ہے اور اب بچت کرنے کا فائدہ نہیں ۔ میں پہلے ہی بہت پیسے ضائع کرچکا ہوں تو یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بچت کبھی بھی شروع کی جاسکتی ہے۔ یہ ہر حال میں آپ کو فائدہ ہی دے گی۔ اپنی ماہانہ آمدنی میں سے تھوڑی رقم سنبھال کر رکھنا شروع کریں۔ آپ کو مشکل وقت میں ضرور ایک وفادار دوست ثابت ہوگی۔
4.انٹرن شپ
آج کل کا زمانہ مقابلے کا زمانہ ہے۔ہر کوئی ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہے۔ ہر کسی کو دوسرے سے آگے جانا ہے۔ چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا ہو۔ نوکریاں جہاں ڈگری کی بنیاد پر ہوتی ہیں وہیں تجربے کی بنیاد پر بھی ملتی ہیں ۔ جس کسی کے پاس کام کرنے کا تجربہ ہوتا ہے وہ ناتجربہ کار پر سبقت لے جاتا ہے۔ اپنی اس فراغت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے آپ کوئی انٹرن شپ بھی کرسکتےہیں۔ اگر اس کے بدلے آپ کو کوئی معاوضہ ملتا ہے تو پھر تو بہت ہی اچھا اور اگر نہیں بھی ملتا تو دل چھوٹا اور کھٹا کرنے کی بات نہیں۔ یہ آپ کو مالی فائدہ نہ بھی دے تو پھر بھی اچھا خیال ہے کیونکہ یہ آپ کو وہ تجربہ دے گاجو کسی بھی انسان کے آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے اور انسان کو دنیا کا سامنا کرنے کی طاقت دیتا ہے۔
5.والنٹیئر
آج کل کی مشینی دنیا میں دلی سکون اور قلبی راحت حاصل کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ دنیا پیسے کی ہوکر رہ گئی ہے لیکن پیسہ دنیا کی ہر چیز خرید سکتا ہے سوائے اطمینان اور خوشی کے۔ دنیا کے امیر ترین لوگ بھی اس خزانے سے محروم ہیں۔ مگر آپ چاہیں تو یہ بغیر کسی مصیبت اٹھائے حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ خوشی جو انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے صرف دوسروں کو خوش دیکھ کر ملتی ہے۔ اس کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرنا ضروری ہے۔ آپ اپنے وقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے یہ خوشی پاسکتے ہیں۔ اب آپ کے ذہن میں یہ سوال گردش کر رہا ہوگا کہ وہ کون سے کام ہیں جو رضاکارانہ طور پر کیے جاسکتےہیں ۔ چلیں ، آپ کی اس الجھن کو دور کرتے ہیں اور چند کام میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ آپ اپنے معاشرے اور برادری میں دیکھیں ، جن کو اپنی مدد کا مستحق سمجھیں ان کی مدد کو پہنچیں۔ آپ کسی ادارے کو خیرات دے سکتے ہیں۔ غریب بچوں کے لیے تحائف بنا کر دے سکتے ہیں۔ جانوروں کا خیال رکھ سکتے ہیں۔ شجرکاری مہم شروع کرسکتےہیں۔ اس کے علاوہ کوڑا ختم کرنے اور ماحول کو صاف کرنے کے لیے اپنےد وستوں کے ساتھ مل کر اقدامات کرسکتے ہیں کیونکہ ان کاموں کے لیے کسی بھی پالیسی کے ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف آپ کے دل اور دماغ کی اجازت کی ضرورت ہے۔
6.نئی زبان سیکھنا
اچھا بولنا وہ ہنر ہے جو انسان کو بہترین بنا دیتا ہے۔ تاریخ میں جن لوگوں کے نام سنہرے حروف میں لکھے گئے ہیں وہ سب کسی نہ کسی زبان پر عبور ضرور رکھتے تھے۔ قائد اعظم کو انگریزی زبان پر اتنا عبور تھا کہ کوئی بھی انگریز یہ دعویٰ نہیں کرسکتا تھا کہ وہ ان سے زیادہ اچھا بول سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فصاحت کے سامنے عرب کے نامور لوگ ٹھہر نہیں سکتے تھے۔ زبان پر عبور ہونے کو دنیا بھر میں اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ چاہیں تو اس موقع اور وقت سے مستفید ہوتے ہوئے کوئی نئی زبان سیکھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے آپ کوئی آن لائن کورس کرسکتے ہیں یا پھر کوئی اکیڈمی جوائن کرسکتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا قدم آپ کے حق میں بہت بہتر ثابت ہوسکتا ہے۔
7.اپنی پسند کے کام کو اپنانا
انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ صرف وہ کام کرنا پسند کرتا ہے جس میں اس کو خوشی محسوس ہو۔ جو کام اس سے زبردستی کرایا جائے یا اس پر مسلط کیا جائے وہ اس کو صرف سر سے اتارتا ہے۔ انسان صرف اپنے دل کی مرضی کے مطابق ہی چلنا چاہتا ہے ۔ یہ بات تب بہت اعلی ہو جاتی ہے جب کام آپ کی خواہش کا ہو ، ہر ایک کو فائدہ ہو اور وہ کام مثبت ہو۔ اگر آپ کا دل اور دماغ منفی کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو ضرورت اپنی پسند کے کام کرنے کی نہیں بلکہ دماغ کو درست کرنے کی ہے۔ اگر آپ بی ایس سے فارغ ہوچکے ہیں۔ تو آپ کو چاہیے کہ یہ سوچیں کہ آپ کو کیا کام پرلطف لگتا ہے اور پھر وہ کام کرگزریں۔ وہ چاہے تو کوئی نوکری ہو یا پھر کوئی اضافی مطالعہ ہو۔ پینٹنگ ہو یا سکچینگ۔ ایسی عمر میں نوکریاں بدلنا بھی ایک ایڈونچر سمجھا جاتا ہے۔ اگر ایک نوکری سے دل بھر جائے یا اس میں وہ دلچسپی نہ رہے تو کوئی اور اپنا لینی چاہیے ۔ اپنا بزنس شروع کرنا بھی ایک اچھا خیال ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس عمر میں لوگ خطرات سے ڈرتے نہیں بلکہ خطرات کو ڈراتے ہیں اور انہیں اپنے راستے سے ہٹانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے اس وقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صرف اپنی پسند کے کام ہی کرنے چاہیئں۔
8.دنیا کی سیر
یہ دنیا انسان کےلیے بنی ہے اور انسان کو چاہیے کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کو دیکھے ، تسخیر کرے اور ان سے لطف اندوز ہو کر ان کا شکر ادا کرے۔ اتنےسال پڑھائی کرتے ہوئے سیر کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ اس لیے آپ کو چاہیے کہ اب جو آپ کو موقع ملا ہے تو آپ گھر سے نکل کر گھومنے جائیں اور دنیا کی رنگینیوں کو دیکھیں۔ اس سے آپ کو اپنی مصروف زندگی سے نکلنے کا موقع بھی ملے گا اور آپ ذہنی سکون بھی پائیں گے۔ آپ تازہ دم محسوس کریں گے اور دل و دماغ کو تروتازہ پائیں گے۔ یہ آپ کو زندگی کی خوبصورتی دکھائے گا اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی فراہم کرے گا۔