بیٹا : باپ کی زندگی کا سیکنڈ ورژن
: یوسف الماس
باپ اور بیٹے کا تعلق بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔ دونوں کی عمر اور دلچسپیوں کو پیش نظر رکھ کر کسی ایک نکتے پر رکنا مشکل ہوتا ہے۔ دونوں کی مردانہ وجاہت اور نفسیات بھی رکاوٹ بنتی ہیں۔ بعض اوقات گھر میں باپ کی کنٹرولنگ حیثیت بچوں میں دلیل اور عقل کے لیے دوستانہ ماحول نہیں بننے دیتی۔ اس صورتحال میں یقیناً آپ سوچیں گے اور پسند بھی کریں گے کہ ذرا گہرائی سے سمجھا جائے کہ اصل بات کیا ہے ۔
وہ کچھ درمیانہ سا موسم تھا۔ نہ زیادہ سردی اور نہ ہی گرمی ۔ ابا جی نے کہا کہ تیار ہوجاؤ ہم نے جانا ہے۔ جلدی جلدی سے تیاری کرکے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ باربار ذہن میں سوال تھا کہ گاؤں سے کب نکلیں گے۔ بالاخر ٹرین کے ذریعے ہم دونوں لاہور پہنچے، اباجی نے کسی سے ملنا تھا۔ ان کی طرف گئے ۔ فارغ ہوئے تو اباجی نے کہا کہ کھانے کا وقت ہورہا ہے۔ پہلے کھانا کھاتے ہیں پھر واپس گاؤں جائیں گے۔ ساتھ ہی سوال آیا کہ کیا کھانا ہے؟ خاموشی اور بس خاموشی اور بالآخر وہ مجھے ایک بہت ہی صاف ستھرے ریستوران میں لے گئے۔ یہ ریستوران ہر لحاظ سے نفیس اور صاف تھا۔ آرڈر دینے کے تھوڑی دیر بعد کھانا آیا۔ اس دوران میں انہوں نے اپنی زندگی کے کچھ تجربات بتائے۔ گلستان اور بوستان میں سے کہانیاں سنائیں۔ ہم کافی دیر وہاں رہے۔ آخر میں ہوٹل والوں نے ہاتھ صاف کرنے کے لیے دو الگ الگ باؤل میں نیم گرم پانی دیا ۔ جن میں کٹے ہوئے لیمن اور گلاب کی پتیاں تیر رہی تھیں۔ ساتھ ہی ابا جی نے بل دیا اور واپسی کی تیاری کی۔ مختصر یہ کہ تقریباً تین گھنٹے بعد اباجی اور میں ، ہم دونوں گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔ گھر جا کر میں نے تمام اہل خانہ کو بتایا کہ ہم وہاں اور وہاں گئے تھے۔
یہ 80 ء کی دہائی کے شروع کے سالوں کا واقعہ ہے۔ میں آج باپ ہوں اور انسانی نفسیات سے بھی واقف ہوں۔ جب جب اباجی کے ساتھ گزرا اس طرح کا Dedicatedوقت یاد آتا ہے تو جذبات اپنی پوری طاقت سے آنکھوں کے راستے نکلنا بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جسم حرارت محسوس کرتا ہے۔ چھوٹی بڑی اونچ نیچ بھول جاتی ہے۔ زندگی کو ایک نیا جذبہ مل جاتا ہے۔ ان کے لیے درجات کی بلندی کی دعا اور آخرت میں جنت میں ملاقات کی خواہش ہی نہیں بلکہ یقین پختہ ہوجاتا ہے۔ تاریخ میں خدیجہ ، خنساء، اسماء اور زینب کے نام ہیں مگر چند ایک ۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کا دامن تو بہرحال باپ ہی کے کردار سے بھرا پڑا ہے۔ اسی لیے میرے نبی ﷺ نے تربیت کا عصا(ڈنڈا) باپ کے ہاتھ میں پکڑایا ہے۔
باپ ایک ایسا کردار ہے جو گھر میں بچوں کے حوالے سے بڑا خاموش کردار ہوتاہے اور دنیاوالوں کے حوالے سے بہت ہی گرج برس والا کردار۔ دنیا میں ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا اور گھر میں محض مسکرا کر دیکھنا ہی کافی سمجھتا ہے۔ اس کی متدبرانہ زندگی بچوں کے فہم و شعور کی گتھیاں سلجھا رہی ہوتی ہے۔ اس کا رہن سہن اور انداز زندگی نسلوں کے لیے اصول متعین کر رہا ہوتا ہے۔ زندگی کے اسلوب وہی سکھاتا ہے۔ کٹھن حالات میں مسکرانا وہی بتاتا ہے۔ اعتماد اور مستقل مزاجی کے راز وہی جانتا ہے۔ اس لیےمیں سمجھتا ہوں کہ باپ کو اپنا کردار ٹھیک ٹھیک انداز سے ادا کرنا چاہیے۔
کوئی جو چاہے کہے ، حقیقت یہ ہے کہ بیٹے سب سے پہلے اپنے باپ کو ہی دیکھتے ہیں۔ ان کی زندگی میں فطری جگہ ہوتی ہی باپ کی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو شاید دو جمع دو چار کی طرح نظر تو نہیں آتی مگر دنیا کا ہر فرد اسے تسلیم کرتا ہے۔ اب باپ اگر اپنی اس حیثیت کو نہ سمجھے اور ذمہ داری کو نہ پہچانے تو دنیا میں اس سے بڑھ کر غیر ذمہ دارانہ کام کسے کہا جائے گا؟۔ بیٹا اپنے باپ کو دیکھتا ہے کہ وہ اس کی ماں اور بہن سے کس طرح معاملات رکھے ہوئے ہے ۔ اسی سےوہ فہم حاصل کرتا ہے کہ مجھے اس معاشرے میں خواتین سے کیسے ملنا ہے اور ان سے تعلقات کی نوعیت کیسی ہوگی؟ یہ قابلیت تو باپ ہی کے ذریعہ آتی ہے کہ اختلافات ، مسائل اور مشکلات کو کیسے حل کرنا ہے؟ دنیا میں تعلقات کی حدود اور سطح کے تعین کے بارے میں درست ترین بات ایک والد ہی بتا سکتا ہے۔ جہاں ایسا نہیں ہوگا، وہاں خرابی اور الجھاؤ ضرور آئے گا۔ یہ قسمت کی بات ہے کہ جلد آئے یا دیر سے۔
باپ اور بیٹے ہونے کی حیثیت میں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کچھ دلچسپیاں مشترک نہ ہوں۔ کرنے کا کام یہ ہوتا ہے کہ ایک بیٹے کو گھر کے ماحول سے باہر دیکھیں۔ اسے دیکھتے ہوئے آپ نظر نہ آرہے ہوں ۔ پھر اس کے ساتھ اکیلے میں وقت گزاریں، اگر یہ کام کرتے ہوئے آپ اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ دو دلچسپیاں ہماری مشترک ہیں تو پھر اسے وہ کام جسم اور جان پر بوجھ محسوس نہیں ہوں گے۔
میرے والد ہر قابل فرد کی قدر کرنے والے تھے، اس کا تعلق معاشرے کے کسی بھی طبقے سے کیوں نہ ہو۔ معاشرے کا ہر کمزور انسان ان سے بلاجھجک قرض لے سکتا تھا، جس پر سود نہیں تھا ، چھ ماہ، سال بعد واپسی کا وعدہ، وہ بھی اس صورت میں کہ آپ ہی کے پاس کام کروں گا تو آدھے لوں گا اور آدھے سے قرض اتاروں گا۔ چھوٹی سی بات پر آنکھیں نم ہوجاتیں۔ نماز میں ذرا سی بے قاعدگی ان کے لیے بھی مشکل بن جاتی اور سارے گھر والوں کے لیے بھی۔ دوسری جانب بلاجھجک اپنی بات کہنا، بے لاگ تبصرہ اور مضبوط منطق Logic کے بغیر اپنی رائے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہوتے تھے۔ بدتمیزی اور بااعتماد ہونے کے فرق کو جانتے تھے اور اس کی اجازت نہیں دیتے تھے ۔ کسی نوعیت کی گالی ان کی لغت میں نہیں تھی۔ اچھائی کے پیمانے جانتے تھے اور اسی کے مطابق ہر کسی کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ زبان کی باریکیوں کو نہ جانتے تھے نہ اس میں پڑتے تھے۔ اصول تھا کہ ایسے کام کیوں کرتے ہو جن کے لیے زبان کی باریکیوں میں جانا پڑے۔
بیٹوں میں ، میں سب سے چھوٹا ہوں۔ ان کی سوچ اور انداز فکر کا میرے اوپر بہت زیادہ اثر ہے۔ آج اگر میں نے دوسروں کی بہتری اور ملت کی کامیابی کے لیے تعلیمی مشاورت اور رہنمائی کا کام شروع کیا ہے۔ انہوں نے مجھے تقریباً زندگی کے ہر پہلو پر رہنمائی دی۔ ان موضوعات پر بھی جو عام طور پر ممنوع ہوتے ہیں۔ ایک ایک لفظ اور جملہ متانت اورسنجیدگی کا اظہار کر رہا تھا۔ جیب میں کم بھی ہے مگر اعتماد اور امانت کے ساتھ زندہ رہنا انہوں نے ہی سکھایا۔ حدود میں رہتے ہوئے لازمی مہمان نوازی انہوں نے ہی دی ہے۔
معاشرے میں آج منفی چیزیں کتنی ہیں اور مثبت کتنی۔ وہ منفی اور خرابی کرنے والی چیزیں اور کردار کتنے ہیں جو لباس مجاذ آتی ہیں ۔ ان کے برے اثرات کی وسعت کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟ یہاں والد ہی ہے جو بیٹے کے سامنے سے حقیقت کے پردے اٹھا سکتا ہے۔ بیٹے کے ماحول کو مثبت بنانے اور اس کے مزاج کو درست کرنےبنیادی کردار ادا کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصیت کا نکھار یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
کیریئر کونسلنگ کے لیے بچوں کے ٹیسٹ لیتا ہوں۔ درجنوں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی دیکھتا ہوں کہ بچے کو اللہ تعالیٰ نے کیا کچھ دے کر بھیجا اور کیا وہ سب کچھ باپ کی نگرانی میں پھلا پھولا یا باپ محض اے ٹی ایم میں ہے۔ اس لیے کہ ان صلاحیتوں کے نکھار کا کام والد محترم کی طرف ہی بھیجا جائے گا۔
قدیم اور جدید نفسیات اس بات پر متفق ہے کہ انسان کو انفرادی توجہ سے زیادہ کوئی دوسری چیز متاثر نہیں کرسکتی۔ انفرادی توجہ اسی وقت کارآمد ثابت ہوتی ہے جب کچھ بنیادی باتوں میں اشتراک موجود ہو۔ بچے کو ناول پسند ہے میں کوسوں دور، میں پڑھ نہیں سکتا لیکن کچھ سن تو سکتا ہوں۔ بچے کی پسند کو پیش نظر رکھے بغیر انفرادی توجہ ممکن ہی نہیں۔ میں بہت کوشش کرلوں جواب صفر آئے گا۔ میرے بیٹوں کو سٹیج پر جانے اور بہترین نتائج لینے کا شوق ہے لہٰذا اس دن مجھے شدید انتظار ہوتا ہے کہ بچے کب واپس آئیں گے اور کیا لائیں گے۔
بیٹے کو زندگی کا مفہوم باپ ہی سمجھائے گا۔ اگر باپ نہ بھی سمجھائے تب بھی بیٹا اسی سے ہی سمجھے گا۔ باپ کی اپنی زندگی بتائے گی کہ زندگی کسے کہتے ہیں؟۔ آپ کوئی بھی نظریہ رکھتےہیں ، کوئی بھی مکتبہ فکر ہے، دین کو ماننے والے ہیں یا نہیں، اسلام کو ایک حقیقت کے طور پر مانتے ہیں یا نہیں، اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ آپ زندگی گزار رہے ہیں یا گزرے جارہی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ لہٰذا ضروری ہے کہ آپ بیٹے کو زندگی سمجھا دیں۔ اس کے اتار چڑھاؤ بتادیں۔ زندگی کے بارے میں مختلف نظریات بھی بتا دیں۔ میں اپنے بیٹے سے کہتا ہوں کہ بیٹا! اس کتاب کا فلاں بابChapter پڑھیں اور پھر مجھے دوسری زبان میں لکھ کر دکھائیں اور ساتھ ہی زبانی بھی سمجھائیں۔ اس طریق کار سے معانی اور مفہوم ٹھیک سے ذہن نشین ہوجاتا ہے۔
آخری بات یہ کہ قابل فخر نسلوں کی تیاری میں باپ کا کردار بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔