دلہن کا سائیڈ پوز
: ایمن طارق
دلہن کا سائیڈ پوز
۔۔ایمن طارق ۔۔
دلہن کو سائیڈ پوز سے کھڑے ہونے کی ہدایات دیتے ہوۓ وہ* گردن پر موجود جیولری کو قریب سے وڈیو میں لینا چاہ رہا تھا۔ پیچھے سے کسی کے ٹکرانے سے زرا سا زاویہ تبدیل ہوا تو اُس نے جگہ بدل کر اردگرد جائزہ لیا کہ جہاں سے بغیر پریشانی کے وڈیو بنائ جاسکے ۔ دلفریب خوشبو موتیا اور پرفیوم کی ملی جلی اُسے مسحور سا کرگئ ۔ اب جو جگہ تھی وہ دلہن کے صوفے سے زیادہ نزدیک تھی اور وہیں سے یہ خوبصورت خوشبو بھی آرہی تھی ۔ بہت ہی کم عمر کوئ لڑکی تھی اور بیوٹی پارلر کے میک اپ نے اُسے حسین ترین بنادیا تھا۔ لدے پھندے زیورات اور گہنے، سرخ رنگ کا غرارہ ایسا سج رہا تھا کہ کئ دفعہ نظریں موڑنے پر بھی بار بار دیکھنے کا دل چاہ رہا تھا ۔ شادی کی وڈیوز بنانے کے پروفیشن میں تو وہ کئ سال سے تھا لیکن کچھ کچھ دلہنیں ایسی ہوتیں کہ کچھ وقت کی وڈیو میں دل بھر کر دیکھنے اور أنکھیں ٹھنڈی کرنے کا موقع مل جاتا ۔ اپنی شادی نہیں ہو پاتی تو کیا کریں زرا حسین نظارے دیکھ کر ہی دل بہلالیں ۔ چھ بہنوں میں درمیانہ نمبر تھا اور ابھی تک دو بہنیں غیر شادی شدہ اوپر اور چار اُس سے چھوٹی تھیں ۔ گھر میں دو کمانے والے وہ اور ابا ۔ ابھی اپنی شادی کے لیے کہنا بھی گھر میں بدمزگی پیدا کرسکتا تھا ۔ کتنی ہی شادیوں کی مووی بناکر جب وہ گھر لوٹتا تو وہی دلہن تصورات پر چھائ رہتی ۔ ایسی ہی لڑکی شاید میرے نصیب میں بھی ہو ۔
کئ دفعہ جب ڈریسنگ روم میں اور رخصتی کے بعدبیڈ روم میں دلہن کا وڈیو شوٹ ہورہا ہوتا تو مختلف شکل و صورت کے دلہاوں کو دیکھ کر خود کو اُن کی جگہ ہونے کی حسرت دل بے چین کردیتی ۔اکثر زہن میں آتا کہ کتنے خوش نصیب ہیں وقت پر شادی کر رہے ہیں ۔
اتنے سال اس پروفیشن میں رہ کر کتنے ہی ماڈرن ، مذہبی ، نیم مذہبی خاندانوں کو دیکھنے کا موقع ملا اور شادیوں کے موقع پر اُن کی توقعات اور خواہشات کیا ہوتی ہیں یہ اب سمجھ آ چکا تھا۔ ایک بات تو طے تھی کہ اکثر لوگ ان تقریبات کو دوسروں کے مقابلے میں منفرد کرنے کے مقابلے میں ہوتے ۔ اکثر بکنگ کے لیے آتے تو پیسے کم کروانے کے چکر میں رہتے اور شادی کی تقریب دیکھو تو شان و شوکت سے آنکھیں کھلی رہ جاتیں ۔خیر یہ سب تو تھا لیکن مزا بھی تھا اس کام میں اس لیے کسی اور کام یا جاب کی طرف دھیان ہی نہیں گیا ۔ ایک تو نئ نئ حسین تتلیوں کی طرح لڑکیاں دیکھنے کو مل جاتیں تو دل بہلتا اور کھانا فری اور پھر تعلقات بھی بن جاتے ۔
وہ بھی ایسی ہی کوئ تقریب تھی دوست کی طرف سے کانٹیکٹ ملا کہ یار جاننے والے ہیں اور کوئ بھروسے والے فوٹو گرافر کو بلانا چاہ رہے ہیں ۔تم فارغ ہو تو بتاؤ پیسے بھی اچھے ملیں گے ۔ اُس نے حامی بھرلی کرونا نے ویسے ہی کام بہت متاثر کردیا تھا ۔ شادیوں کی دھوم دھام ختم ہوئ تو لوگ چھوٹے پیمانے پر کر رہے تھے اور خود ہی فوٹوگرافی اور وڈیو بھی بنا لیتے ۔
شادی والے دن صبح ہی موڈ عجیب سا تھا ۔ دو دن پہلے ایک محلے کے دوست کا کرونا سے انتقال ہوا ۔ یہی کوئ پچیس سال عمر ہوگئ ۔ مہینہ بھر پہلے دھوم دھام سے شادی ہوئ تھی ۔ کتنے ہی دن کی تقریبات میں اماں ابا نے دل بھر کر پیسہ لگایا تھا ۔ ڈھولکی کی تقریب سب سے شاندار تھی جسمیں پوری رات ہی لڑکے لڑکیاں ناچے تھے ۔ ُاس نے خود بہت اینجواے کیا تھا کیونکہ ڈانس وڈیوز بنانا اس کو سب سے زیادہ پسند تھا ۔ ہر زاوئیے سے کیمرے کا لینس سیٹ کرتے دل چاہتا تھا خود بھی جاکر کسی حسین لڑکی کے ساتھ رقص شروع کردے ۔ اس تقریب کی سہانی یاد ابھی دل میں ہی تھی کہ دو دن پہلے یہ اندوہناک خبر ملی اور ڈر سا بیٹھ گیا ۔ آج ظہر کی نماز بھی پڑھ لی ورنہ کام کے چکر میں نماز یاد نہیں رہتی تھی ۔ جلدی جلدی سارے گناہوں کی معافی مانگ کر سلام پھیرا اور جانماز لپیٹی ۔ ابھی تعزیت کرنے بھی جانا تھا ُاس لڑکے کے گھر۔ اماں بتا رہی تھیں مرنے والے لڑکے کے ماں باپ کا بھی صدمے سے برا حال ہے ۔ تعزیت کے گھر میں ابھی تک باہر کی دیوار پر شادی مبارک لکھا تھا ۔ شاید کسی کو اُتارنا بھی یاد نہ رہا ۔ ہاۓ ری دنیا کیا کیا دکھاتی ہے اللہ معاف کرے ۔
گولڈن بینکوئیٹ قریب ہی تھا گھر سے ۔ اپنے ٹیم کے لڑکوں کو پہنچنے کی ہدایات کرتے وہ بھی پہنچ گیا ۔ لڑکے کے بھائ نے اُسے ویلکم کیا اور بتایا کہ ہماری تقریب ولیمہ جلدی ختم ہوگی اور کھانا بھی نو بجے تک ہوجاے گا ۔ سب سے پہلا دھچکا تو مردانہ زنانہ الگ انتظام پر لگا ۔ سخت کوفت ہوئ بھلا اب کیا مزا ۔ وہ زنانہ طرف اندر داخل ہونے کے لیے مڑا تو پیچھے سے آواز آئ “بھائ دوسری طرف ہے مردانہ “ حیرت سی ہوئ کہ بھلا وہاں کس کی مووی بنے گی دولہا تو دلہن کے ساتھ ہی ہوگا ۔ بجھے دل سے وہ اپنے سامان سمیت آگے بڑھا ۔ ساتھ کام کرنے والے دونوں لڑکے بھی پہنچ چکے تھے ۔ بھائ یہ کہاں لےآۓ آج آپ ؟ نہ کوئ شغل نہ میلہ ۔ ۔ ایک نے دوسرے کو آنکھ مارتے ہوے بظاہر زرا افسردگی سے کہا ۔
یار ہمیں کام سے اور اپنی کمائ سے مطکب چلو اندر چلو ۔
تقریب ولیمہ میں کھانا کھلنے تک یہی ہدایات تھیں کہ دلہا اس کے دوستوں کی مووی بنتی رہے ۔ عجیب دولہا تھا کہ بجاۓ جاکر دلہن کے پہلو میں بیٹھے یہاں دوستوں میں لگا ہے ۔ وہ منتظر تھا کہ کب دوسری جانب سے بلاوہ آۓ ۔ دو ایک دفعہ دولہا کے بھائ نے اس کے پوچھنے پر اسٹیج پر جاکر کچھ کھسر پھیر کی اور پھر آکے بتایا کہ ابھی تھوڑی دیر اور ہے ۔
اللہ اللہ کرکے دوسری جانب جانے کی خوشخبری ملی ۔ لے جانے کا طریقہ زرا عجیب ہی تھا کہ دولہا بنا لڑکا ہی اُسے لئے دوسری جانب بڑھا اور پھر کافی دیر زنانہ دروازے کے باہر کھڑے رہ کر انتظار کرنا پڑا ۔ دولہا مستقل فون کان سے لگاۓ ہلکی آواز میں کچھ گفتگو کر رہا تھا ۔ جتنی کان میں پڑی اُس سے یہی لگا کہ اندر کوئ ہے جو وڈیو کے بنانے پر ناراض ہے یا مان نہیں رہا اور اُسی چکر میں دیر ہورہی تھی ۔ اُس کا تجسس اب انتہا پر تھا ۔ دلہن بنی لڑکیوں کو دیکھ کر دل جو اپنی دلہن کے خاکے بناتا تھا آج اسمیں بہت ہی تاخیر ہوگی تھی ۔ پہلی دفعہ اُسے لگا کہ یہ دلہن کے چہرے و جسم کو کیمرے کی أنکھ سے دیکھنا اُس کے لیے نشہ کی طرح لت پن چکی ہے جسکی ڈوز لیٹ ہونے پر جسم ہلکے ہلکے کانپ رہا ہے ۔ اندر سے اجازت ملی تو وہ جلدی سے دلہا کے پیچھے پیچھے آگۓ بڑھا ۔ اسٹیج تک جاتے جاتے یہ اندازہ ہوا کہ مہمانوں میں سے بہت سے رخصت ہوچکے ہیں یا رخصت ہورہے ہیں ۔ ایک قدم دوسرا قدم اٹھاتے بس اُس کی نظر اسٹیج پر تھی کہ آج کس دلربا کے چہرے پر نظر پڑے گی ۔ اتنے سال میں یہ تو اندازہ اُسے ہوگیا تھا کہ کون میک اپ کی وجہ سے قلوپطرہ بنی ہے اور کس کے قدرتی حسن کو میک اپ نے چار چاند لگاۓ ہیں ۔ کون فطری بے باک سی ہے اور کون جھجھکنے والی ہے ۔ اندازہ یہی ہوا تھا کہ اکثر مولوی ٹائپ لوگ بھی دلہن کے ساتھ ہر زاوئیے سے تصوئریں بنواتے فخر ہی محسوس کرتے ہیں ۔
اسٹیج سامنے تھے اور عنابی رنگ کے لہنگے میں دلربا سی لڑکی کا سراپا ۔ اُس کے دل کی دھڑکن تیز ہوئ ۔کچھ عجیب سا یوں لگا کہ دلہن کی آستین پوری تھی اور گلے کے زیورات بھی نظر نہ آتے تھے ۔ چہرہ ٹھیک نظر نہیں آرہا تھا کیونکہ دلہن نے چہرے کے سامنے ایک پھولوں کا گلدستہ کیا ہوا تھا ۔اُس کی بیتابی اور بڑھ گی ۔ قریب بیٹھی ایک خاتون اس کے ہاتھ سے وہ گلدستہ نیچے کرنے لگیں ۔ دلہا بھی جاکر برابر بیٹھ گیا ۔ اردگرد سے چھیڑ چھاڑ شروع ہوئ ۔ اُسے احساس ہوا کہ دلہن بار بار اپنا گھونگھٹ نیچے کر رہی ہے یا پھولوں کو چہرے کے سامنے ۔
ارے بھابی زرا سر تو اٹھائیں اور مسکرائیں پتا تو چلے ہمارے بھائ کے ساتھ اپ کتنی حسین لگ رہی ہیں ۔
دلہن اس بات کے جواب میں مزید سمٹ گئ ۔ گھونگھٹ اٹھنا تو دور کی بات مزید نیچے ہوگیا اور پھول بھی ۔ اب کے دولہا نے بھی کچھ سرگوشی کئ دلہن کے کان میں ۔کچھ تھا جو اُسے مختلف لگا ۔ کسی کے اصرار پر بھی لڑکی کی پوزیشن میں کوئ تبدیلی نہ آئ ۔ اب اردگرد کا اصرار رُک گیا تھا بلکہ ایک غیر محسوس خاموشی ۔
چلو بھی چلو یہ تو تصویر کھنچوانے کے لئے پوز نہیں دیں گی ، بہت پردے والی ہیں نا ۔ رخصتی کے لئے کھڑے ہوجاو ۔
پیچھے سے آکر کسی نے اس کے کان میں سرگوشی کی “ جب دلہن کھڑی ہونے لگے گی تو ہم اسُ کے ہاتھ سے پھول لے لیں گے اور اپ فورا اس کے چہرے کی تصویر لے لیجیے گا ۔ “
دلہن کھڑی ہوگئ پھول لے لئے گۓ لیکن اُس نے کیمرے کا اینگل اُس لڑکی پر سے ہٹا لیا تھا ۔ کوئ احساس تھا جس نے اُسے اس خیانت سے روک دیا ۔ اپنی نظریں بھی اُس سمت سے ہٹالیں تھیں جسے دیکھنے کے لیے پہلے اُس کا رواں رواں منتظر تھا ۔ کب رخصتی ہوئ اور سامان سمیٹ کر وہ گھر آیا لیکن آج دل بے چین سا تھا ۔ہر تقریب سے واپسی پر اپنی دلہن کا خاکہ لیے جو وہ آتا تھا آج وہ تصور کچھ مختلف تھا ۔ کیا میں جسے اپنی زندگی کا ساتھی بناؤں گا اُس کے چہرے اور جسم کے خدوخال پر کسی کی گستاخ اور میلی نظر برداشت لرپاوں گا ؟؟ کیا میں جن نظروں سے لڑکیوں کے جسم کا ایکسرے کرتا ہوں اللہ تعالی کو نہین پتا چلتا ہوگا ۔ سب مجھے اعتماد کرکے شرافت کا مجسمہ سمجھ کر بلاتے ہیں میری خیانت سے لاعلم ہیں کیا اس بد دیانتی سے میں پرسکون رہ سکوں گا ۔
اس کے دل نے احتجاج کیا ۔
خود سے خفا سا ہوکر اُس نے آنلھیں موند لیں ۔ آج اُس کی دلہن کا تصور مختلف تھا ۔مکمل لباس میں چہرے کو پھولوں سے ڈھانپتی ہوئ کوئ باحیا لڑکی جس کے زندگی میں آنے سے پہلے اُس نے اپنی زندگی کی سمت کو درست کرنا تھا ۔