ذرا یہ ورلڈ کپ ہولے
: Yousuf Almas
پندرہ ، سولہ سال کا نوجوان جب میٹرک کا امتحان دیتا ہے تو اسے بڑی توانائی ملتی ہے ۔ وہ اپنے آپ کو بڑا محسوس کرتا ہے۔ داڑھی اور مونچھوں پر ہلکے ہلکے بال آنے شروع ہوتے ہیں۔ مصروفیات بدلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ شرٹ اور سویٹر کے بازو ذرا اوپر کرکے بات کرتے ہوئے احساس تفاخر ہوتا ہے۔ گھر والے بھی تعارف کرواتے ہوئے کہتے ہیں ماشاء اللہ بڑا ہوگیا ہے۔ دو چار خوبیاں بھی بیان کی جاتی ہیں۔ آپ بھی پاس کھڑے کھڑے قدموں پر ہی ہل کر موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔
آپ میں سے کچھ تو وہ ہوتے ہیں جو ان دنوں دنیا کے بارے میں نئی سے نئی معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ قوموں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک کو فتح کیوں ملی اور دوسرے کو شکست کیوں۔ دولت کے انبار لگانے والے کیا کرتے رہے اور غربت کی چکی میں پسنے والے کون تھے؟۔ دولت، طاقت اور حکومت کے بغیر ، محض اپنی قابلیت کی بنیاد پر صدیوں زندہ رہنے والے کون تھے؟ اس ساری جستجو کے پیچھے ان کی دس سالہ تعلیم اور تربیت ہی ہوتی ہے۔
اس طرح آپ میں سے کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جو ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کرتے ہیں۔ چچا اور ماموں ، خالہ اور پھوپھی کے پاس جانا ہوتا ہے۔ کزن سے ملتے اور باتیں کرتے ہیں۔ کراچی سے مری، سوات اور شمالی علاقہ جات کی سیروسیاحت ہوتی ہے۔ مزا دوبالا کرنے کے لیے کئی انداز اپنائے جاتے ہیں۔ نویں اور دسویں میں آخر جو کچھ پڑھا تھا اس کو عملی رنگ دینے کا موقع تو اب آیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ معاشرے میں موجود غلط تصورات کو پرکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ مختلف لوگوں سے مل کر اور مختلف چیزوں کو دیکھ کر صاف رائے بنانے اور اس کے اظہار کا ٹھیک موقع مل جاتا ہے۔
آپ میں سے کچھ وہ بھی ہیں جو میٹر ک کا آخری پیپر دینے کے بعد سیدھا اباجان کی دوکان پر پہنچتے ہیں ، انہیں ابا کے کام میں ہاتھ بٹانا ہے۔ ابا کا کوئی اور کام ہے تو اسے سنبھالنا ہے۔ ان کا دن رات یہی اوڑھنا بچھونا بن جاتا ہے۔ یہ حالات انہیں افراد اور حالات کو بہتر انداز سے سمجھنے کا موقع دیتے ہیں۔ انہوں نے بھی دس سالہ تعلیم حاصل کی ہے۔ اس لیے انہیں احساس ہے کہ والدین کے کام میں ہاتھ بٹانا بھی ایک تعلیم ہے ، ایک اخلاق ہے ، ایک فرض ہے اور ایک رویہ ہے۔
آپ میں کچھ وہ بھی ہوں گے جو امتحان کے بعد سارا وقت سمارٹ فون کے ساتھ گزارتے ہیں ۔ رات دیر سے سوتے ہیں، صبح گیارہ بارہ بجے اٹھتے ہیں۔ سارا دن ادھر ادھر کی مصروفیات میں گزرتا ہے۔ ملاقات ہو تو پوچھیں کیا ہورہاہے آج کل، تو جواب مل گا " بس فارغ" " کچھ بھی نہیں" وغیرہ۔ ان میں سے بعض کی کھانے پینے کی عادات خراب ہوجاتی ہیں اور بعض کی کچھ اور عادات بگڑتی ہیں۔ اس وقت میں اگر کتاب سے دوستی ہوجائے ، معلوماتی فلموں میں دلچسپی پیدا کی جائے ، تو کم از کم کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئے گی۔
کوئی مہینہ بھر گزرنے کے بعد آپ میں سے اچھی خاصی تعداد کالج شروع ہونےسے پہلے پری ایف ایسی سی کی کلاسز لینا شروع کردیتے ہیں۔ پرائیویٹ کالجز نے اپنی مارکیٹنگ کے لیے ان کلاسز کا اجراء کررکھا ہے۔ آپ کی وہ مصروفیات شروع ہوتی ہیں جو آئندہ دو سال تک آپ کو مسلسل مصروف رکھتی ہیں۔ بعض دوست کہتے ہیں کہ آخر کیا ضرورت ہے ان کلاسز کی۔ ہم تو بس باقاعدہ کالج کی کلاسز ہی پڑھیں گے۔ یہ بحث و تکرار چلتی رہتی ہے ۔ کچھ ان کلاسز میں داخلہ لے کر آدھے سے زیادہ سلیبس ختم کرلیتے ہیں۔ اور کچھ اپنے وقت کواِدھر اُدھر کی مصروفیات میں گزار دیتے ہیں ۔
میٹرک کے امتحانات کے بعد کا یہ زمانہ بڑی تیزی سے گزرتا ہے ۔ رزلٹ کے دن قریب آتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اچھا وقت گزر گیا۔ آپ کا حاصل کیاہواعلم دراصل انہی دنوں عملی شکل اختیار کرتا ہے جس قدر آپ کے علم کی جڑیں گہری اور پختہ ہوں گی اسی قدر تصورات پختہ ہوں گے۔ جس قدر تصورات اور خیالات پختہ ہوں گے اسی قدت تعلیمی سفر اعلیٰ اور عملی زندگی مثالی ہوگی۔ اور اگر رویہ دوسرا اپنایا جائے اور انداز یہ بن جائے کہ " ذرا یہ ورلڈ کپ ہولے۔ اس کے بعد دیکھیں گے۔" تو پھر ہر اٹھنے والا قدم عبرت کا نشان بن جاتا ہے۔