زندگی رکنے لگتی ہے
: یوسف الماس
انسان ہزاروں سال سے زمین پر ہے اور نامعلوم کتنے لمحے یا کتنے ہزار سال ابھی باقی رہے گا۔ سوچتا ہوں یہ کیسی مخلوق ہے اس کی ایک ایک بات توجہ طلب ہے۔ چھوٹی سی بات پر خوش ہوجاتا ہے اور چھوٹی سی بات سے ناراض۔ کبھی اپنوں میں بیزار اور بیگانوں میں خوش۔ کبھی روپیہ پیسہ اول و آخر اور کبھی مقام و مرتبہ۔ کبھی کام مصیبت اور کبھی فرصت عذاب۔ کبھی محفلوں کی رونق اور عاشقوں کی جان۔ کبھی تنہائی میں مسکراہٹیں اور کبھی دوستوں میں بھی پریشان ۔
انہی انسانوں میں بعض انسان بڑے وقار، عزت، مقام و مرتبہ کا پاس لحاظ کرتے ہوئے کسی بھی طرح کی صورتحال میں اپنے آپ کو سنبھالے رکھتےہیں۔ وہ گرتے نہیں ہیں۔ دوسروں کے لیے رہنما بن جاتے ہیں۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ وہ اپنی منزل جانتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں ۔ ان کا ہر قدم سوچا سمجھا ہوتا ہے۔ ان کی اپنی زندگی میں ان کی اپنی پسند اور معیار کی ہی چیزیں ہوتی ہیں۔ ان کے معمولات زندگی بہت روانی سے چل رہے ہوتے ہیں۔
انہی انسانوں میں بعض زندگی کو کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ زندگی ہے کہہ اس نے بیس قسم کے بٹے اپنے اندر رکھے ہوتے ہیں جو زندگی کو بوجھل بنا دیتے ہیں۔ زندگی اپنی آنکھیں کھول ہی نہیں پا رہی ہوتی ۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ زندگی کی دماغی صلاحیت جواب دے رہی ہے۔ ہر معمولی چڑھائی رکاوٹ لگتی ہے۔ دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے۔ کبھی بہت زیادہ نیند اور کبھی بالکل نہیں آتی۔ لہجے میں تیزی بھی محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ سب خطرناک علامات ہیں مگر انسان کو اللہ نے یہ قدرت دی ہے کہ وہ ایک لمحے میں فیصلہ کرے اور دوسرے لمحے میں سب کچھ بدل جائے گا۔
زندگی اس وقت رکنے لگتی ہے جب انسان کو اپنے کام پر پورا کنٹرول نہ ہو۔ جو کام کیا جارہا ہے یا جو ہدف سامنے ہے اس کے اختیارات پورے نہ ہوں۔ آزادی سے اپنے کام کو کر نہ سکتا ہو۔ اس کی کئی ایک شکلیں ہیں۔ آپ اپنے گردو پیش میں دیکھ سکتے ہیں۔
قدم اس وقت بوجھل ہوجاتے ہیں جب آفس میں بیکار بیٹھ کر بیزاری شروع ہوجائے۔ شروع میں لگتا ہے کہ بہت مزے کی بات ہے مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد مزا بیزاری اور اکتاہٹ میں بدل جاتا ہے۔ بالآخر آپ آفس سے باہر ہوتے ہیں۔ یہ مسئلہ آپ کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے اور آفس یا ادارے کی طرف سے بھی۔
زندگی رکاوٹ محسوس کرتی ہے جب وہ انسانوں سے دور ہوتی ہے۔ جہاں جہاں وہ انسانوں سے دور ہوتی جائے گی مسائل شروع ہوجائیں گے۔ انسان انسانوں میں ہی خوش رہتا ہے۔ پسند کے ملیں تو بہت خوب اور پسند کے نہ بھی ہوں تب بھی گزارا کرلے گا۔ اگر دوری ہوجائے تو پھر انسان کے پاس بھاگنے کے علاوہ راستہ نہیں ہوتا۔
زندگی بیزاری کا شکار ہوجاتی ہے جب انسان کی صلاحیت اور قابلیت کا استعمال نہ ہورہا ہوبلکہ اسے ایک روایتی اور معمول کے کام پر لگا دیا جائے۔ انسان کا جذبہ سرد پڑجاتا ہے۔ اس کے اندر ہی اندر ایک لڑائی شروع ہوجاتی ہے جو رکنے کا نام نہیں لیتی۔ بڑھ جائے تو چہرے کی جھریوں کی شکل میں تاحیات نشانی رہ جاتی ہے ۔
زندگی پستی کا شکار ہوجاتی ہے جب انسان کے کانوں سے خوبصورت تعریفی الفاظ نہ ٹکرائیں ۔ کبھی کبھی چند تعریفی الفاظ کئی ہزار روپے سے زیادہ قیمتی ثابت ہوتے ہیں۔ مگراس معاملے میں اکثر Boss کنجوس واقع ہوئے ہیں ۔ ایسے میں انسان پریشانی کا شکار ہوجاتا ہے۔
زندگی آگے نہ بڑھے تو رک جاتی ہے۔ رک جائے تو رکتی ہی نہیں بلکہ پیچھے کی طرف جاتی ہے۔ انسان کی اندرونی اور بیرونی حالت خراب ہوتی ہے۔ اس کا علم رکتا ہے، تجربہ رکتا ہے، مختلف اور دلچسپ منظرنامے بنا نہیں سکتا۔ جو پانچ، دس سال پہلے کرسکتا تھا آج نہیں کرسکتا۔ ایسے میں زندگی رکنے لگتی ہے۔
زندگی کا ایک فطری راستہ ہے جب اس سے ہٹتی ہے تو فطرت سے لڑتی ہے۔ فطرت سے لڑائی انسان کے بس کی بات نہیں۔ انسان کو کچھ قوتیں اور طاقتیں میسر ہیں وہ فطرت کی مدد کے لیے ہیں ، اس سے لڑائی کے لیے نہیں ہیں۔لہٰذا اس لڑائی میں اس کی اپنی قوتیں جواب دے دیتی ہیں۔ ایسے میں انسان بیزار ہی ہوگا۔
آپ بھی اپنے تجربات شیئر کیجیے ، تاثرات بیان کیجیے، آپ بھی بتائیں زندگی کب رکنے لگتی ہے۔