سرخ و سفید چہرہ سیاہ چھائیوں سے بھرگیا
تحریر: حمیدہ کیلانی
انتخاب،، عابد چودھری
*خبردار کسی کا مذاق مت اڑایں اور کسی کو برے القاب سے مت پکارو اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے*🍀
انہوں نے اپنی نگاہیں اٹھائیں اوراپنی انگلی ہلا کر بولیں ۔
’’ تبصرہ جائز نہیں ہے ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کا سرخ و سفید چہرہ سیاہ چھائیوں سے بھرگیا تھا ، جاننے والے پہچاننے سے انکاری ہوتے تھے ۔ پوچھنے والے پوچھتے یہ وہی محترمہ ہیں ؟ تاسف سے سر ہلایا جاتا ۔
پوچھا آپ کے چہرے کو کیا ہوا ۔۔۔۔۔ وہ نیک نامی میں شہرت تامہ رکھتی تھیں ۔ بولیں ۔
اللہ کہتے ہیں نا برے القابات سے نہ پکارو بس ایسا ہی جرم مجھ سے سرزد ہوگیا ۔
کیا ہوا ؟ حیرت سے میں نے پوچھا تھا ۔
بولیں : ایک عزیزہ تھیں ، ان کا چھائیوں سے بھرا چہرہ دیکھ کر میں نے کہا تھا۔
’’ یہ کیا حال بنالیا ہے اپنا ؟ اس چہرے کے ساتھ کیا کیا ہے؟
عزیزہ بولیں : بس ! یہ کوئی اپنے بس میں ہوتا ہے بھلا ؟
’’بالکل اپنے بس میں ہوتا ہے ، خوراک اچھی کرو اپنا خیال رکھو اور انسان بن جاؤ‘‘ میں نے کھٹے میٹھے لہجے میں اسے جتاکر آنکھیں دکھائیں ۔
وہ چلی گئیں ! اور حمیدہ! میرا چہرہ سیاہیوں سے بھر گیا ۔ میں روزانہ ایک کلو دودھ پی لینے لگی اور چالیس دنوں میں ڈیڑھ من انار کا جوس پی گئی ۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ لیکن میرے چہرے سے ایک لکیر بھی چھائیوں کی نہ ہٹی ۔ اور مجھے یقین ہوگیا کہ ہم اپنی انگلی پہ موجود ایک ناخن کے ذرہ کابھی اختیار نہیں رکھتے ۔
اور میں تمہیں بتاؤں ! انہوں نے اپنا سر ہاتھوں میں دے دیا ۔
وہ پندرہ برس کی بچی تھی ۔ اس نے اپنے رشتہ داروں کی جانب دیکھ کر کہا تھا ۔
ان سب کی تو آنکھیں نسلا ہی خراب رہتی ہیں ۔ کیسے گھور گھور کے دیکھتے ہیں ۔ عینکوں کا راج ہے ان کے ہاں ۔
بس یہ جملے نوک زبان سے پھسلے تھے ۔ اور اس بات کو چھے مہینے نہ گذرے تھے ۔ کہنے والی کے گھر میں تمام بچوں کو چار ، پانچ ، چھے نمبروں کو عینگیں لگ گئیں ، لیکن حیرت انگیر معاملہ یہ ہوا ، کہ جن رشتہ داروں کو عینکیں لگی تھیں ، ان سب کی اتر گئیں ۔
انگلیاں زبان تلے دب گئیں اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
اور میں تمہیں بتاؤں!
مدرسہ کی مدیرہ کے پاس ایک ابنارمل بچی پڑھنے آئی ۔ وہ قرآن پڑھنے کی بے حد شوقین تھی ؛ لیکن وہ بچوں کے قرآن پھاڑ دیتی تھی ۔۔۔ نا سمجھ تھی نا ۔ بچوں کے والدین شکایات لیے آں پہنچتے تھے اور مدیرہ نشانہ سوال بنتی تھیں ۔ آخر مدیرہ نے فیصلہ کیا ، اس بچی کو مدرسہ سے نکال باہر کیا ۔ لیکن ۔۔۔۔ لیکن وہ بچی نکلتی نہیں تھی ۔ وہ روتی تھی ۔ اس کی آہیں آسمان کو لرزاتی تھیں لیکن اسے نکالے بغیر چارہ بھی تو نہیں تھا ، اسے چیخوں سمیت مدرسے سے نکال دیا گیا ۔ چند مہینے بعد مدیرہ کی گود میں ایک ابنارمل بچی نےجنم لیا ، مدیرہ کی نگاہوں میں روتی سسکتی قرآن سے محبت کرنے والی بچی کا چہرہ گھوم گیا اور اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔
اور سنو!
طاھرہ بیگم نہایت معزز معروف خاتون تھیں ۔ ان کے سامنے ایک ایسی خاتون کا تذکرہ کیا گیا جو اپنے چھے بچے چھوڑکرخلع لے گر گھر آگئی تھی ۔
’’بھلاکوئی اپنے بچے یوں بھی چھوڑاکرتا ہے، بھلا کوئی اپناگھر یوں بھی توڑتا ہے‘‘
انہوں نے تبصرہ کیا تھا اورکرنا تو چاہیے ہی تھا ، کہ ان کی اپنی بیٹی فاطمہ نہایت سگھڑتھی اور اپنے سسرال میں خوش وخرم بستی تھی ۔
لیکن ہائے ! فاطمہ کے بھلے مانس شوہر کو کہیں شراب کی لت لگ گئی ۔ امیری غریبی میں بدلی ، سکون آہیں بن گیا ۔ نوبت فاقوں کو پہنچی ، فاطمہ بچوں کو لیے قریب ہی واقع اپنے ماموں زاد بیٹے کے گھر آٹھری ، کہ ننھی جانیں بھوک سے مرنہ جائیں ۔ شوہرکو جب معلوم ہوا کہ کزن کے گھر گئی ہے تو نا صرف عزت پر حملہ کیا بلکہ وہیں طلاق دے کر فارغ کردیا ۔
فاطمہ طاہرہ بیگم کے گھر آگئی اوران کے لبوں سے بے اختیار جملہ پھسلا ۔
’’میری بیٹی کو میرا ہی طعنہ برباد گیا ۔‘‘
قرآن نے کہا تھا
ویل لکل ھمزہ لمزہ
تباہی ہے بربادی ہے ہر طعنہ دینے والے عیب جوئی کرنے والے کے لیے۔۔۔۔۔۔!!!
کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تبصرہ کرنا بھی جائز نہیں ہے حمیدہ ! جسے تکلیف میں دیکھو اس کے لیے دعا کرو ، حق کی بات پہنچاؤ، صبر کی تلقین کرو، تسلی ، ہمدردی اور غمگساری کرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تبصرہ ۔۔۔ طعنہ ۔۔۔ تمسخر نہیں کہ یہ دنیا وآخرت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں ۔
میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہا:
آپ ٹھیک کہتی ہیں ، تبصرہ جائز نہیں ۔