کردار ساز
: عظیم الدین عثمانی
میں کتنا کم عمر تھا؟ یہ تو اب یاد نہیں۔ ہاں مگر یہ یاد ہے کہ ڈھلتی شام کا وقت تھا اور میں نیکر پہنے گلی میں دوستوں کے ساتھ حسب معمول کرکٹ کھیلنے میں مگن تھا۔ اتنے میں بڑے بھائی نے آواز دے کر کہا کہ اندر آجائو، والد بلا رہے ہیں۔ میں سن کر حیران ہوا کہ اسطرح سے دوران کھیل والد کا بلانا خلاف معمول تھا۔ بہرکیف جلدی جلدی گھر میں داخل ہوا تو یہ دیکھ کر پریشانی سی ہوئی کہ سب گھر والے ڈرائنگ روم میں جمع ہیں۔ میں جانتا تھا کہ ہمارے گھر میں ڈرائنگ روم میں گفتگو اسی وقت ہوا کرتی تھی جب کوئی اہم معاملہ ہو۔ ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوا تو والد کے چہرے پر شفیق مسکراہٹ دیکھ کر جان میں جان آئی۔ وہ مجھے دیکھتے ہوئے مخاطب ہوئے ۔۔ "بھئی تم سے ایک مشورہ کرنا ہے" ۔۔ میں نے حیران سوالیہ نظروں سے انکی جانب دیکھا اور کہا "جی؟" ۔۔ وہ بولے "دراصل تمہارے سب سے بڑے بھائی کی شادی کیلئے تم سے پوچھنا تھا کہ اگر ہم فلاں جگہ رشتہ طے کریں تو کیسا رہے گا؟" ۔۔۔ یہ سن کر جہاں ایک حیرت کا جھٹکا لگا ۔۔ وہاں یہ سوچ کر خوشی سے سینہ چوڑا ہوگیا کہ میری رائے گھر میں اتنی زیادہ اہم ہے۔ میرے والد خوب جانتے تھے کہ انکے اس چھوٹی سی عمر کے بیٹے کا جواب کیا ہوگا؟ مگر مجھ سے میری رائے پوچھ کر انہوں نے مجھے وہ خوداعتمادی کا تحفہ دے دیا جو پھر ہمیشہ میرے ساتھ رہا۔
۔
نوجوان ہوا تو فرقہ پرستوں کے یاتھوں ایک بار مذہبی منافرت کا اس شدت سے شکار ہوا کہ والد سے اسی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر گستاخی کی اور ان ہی پر تکفیر کرنے لگا۔ والد نے مسکرا کر میری سب نفرت انگیز گفتگو کو بغور سنا اور پھر شائستگی سے تمام باتوں کا ایسا مدلل جواب دیا کہ مجھ پر اپنی غلطی و حماقت واضح ہوگئی۔ جب بات ختم ہونے لگی اور میں قائل ہوگیا تو والد نے مجھے ٹوکا اور کہا کہ "تمہیں میری باتوں پر ہرگز اعتبار نہیں کرنا چاہیئے۔ کیا معلوم میں چرب زبان ہوں اور جھوٹ بول رہا ہوں؟ کل تم نے فلاں کو سنا تھا تو تم اس کو درست مان یٹھے۔ آج مجھے سنا تو میری باتوں پر ایمان لے آئے۔ کل کوئی مجھ سے زیادہ بولنے والا ملے گا تو تم اسکے بھی قائل ہوجائو گے" ۔۔ میں پریشان سا بیچارگی کی حالت میں انہیں تکنے لگا تو کہا کہ اگر واقعی تم حق تک رسائی چاہتے ہو تو پھر قران اور صحیح احادیث کو پڑھو، سمجھو، تحقیق کرو اور پھر کوئی نتیجہ اختیار کرو۔ والد چاہتے تو اس دن مجھے اپنا اندھا مقلد کرسکتے تھے۔ مگر انہوں نے مجھ میں تحقیق کا ایک ایسا بیج بو دیا جو بہت سال بعد برداشت اور تحقیق کا درخت بن کر نمودار ہوا۔
۔
آج جب میں جوانی کے آخری دور یا یوں کہیئے کہ ادھیڑ عمری کے اوائل دور میں داخل ہوا ہوں۔ تب والد سے مختلف سنجیدہ امور پر گفتگو کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا جب ان کی اور میری رائے مختلف تھی۔ لیکن انہیں جب قوی دلائل میسر آئے تو وہ جھٹ اپنی عمر بھر کی سمجھ کو ایک طرف رکھ کر قائل ہوگئے۔ رائے سے رجوع کرلیا۔ گویا آج بھی وہ زبان حال سے میری تربیت کررہے ہیں کہ عظیم کبھی اپنے نتائج میں ایسے ہٹ دھرم نہ ہوجانا کہ مخالف کی برتر دلیل کو بھی قبول نہ کرسکو۔
۔
دوستو ماں کا رشتہ تو انمول ہے ہی کہ اسکی کوئی نظیر نہیں۔ مگر باپ کا رشتہ بھی ایسا مقدس ہے جس کا مول ڈھونڈے سے بھی نہیں مل سکتا۔ باپ وہ ہستی ہے جو ساری زندگی اپنی ہڈیاں گھلا کر بچوں کی تربیت کرتا ہے مگر اکثر انہیں سمجھا نہیں پاتا کہ وہ انہیں کس قدر چاہتا ہے۔ باپ وہ کردار ساز ہے جو غیر محسوس انداز میں ہماری کردار سازی کرتا ہے۔ دنیا کے سرد و گرم سے کیسے ٹکرانا ہے؟ اس کا اعتماد و حوصلہ دیتا ہے۔