کرغیزستان کی ڈاکٹر ساز منڈی
: ڈاکٹر بادشاہ منیر بخاری
حالیہ دنوں میں پاکستان میں کرغیزستان کا نام ہر اخبار اور ٹی وی کے سکرینوں پر نظر آ رہا ہے، اس کی وجہ وہاں موجود پاکستان میڈیکل کے طلبا پر مقامی باشندوں کے پرتشدد حملے ہیں۔ یہ ملک ازبکستان کو چھوڑ کر اس خطے کا سب سے غریب اور غیر ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس لیے اس کی ایک تہائی آبادی دیگر ملکوں میں کام کی تلاش میں جاتی ہے۔ اس ملک کا سب سے بڑا بزنس جسم فروشی ہے۔ اور اس کے افراد دیگر وسطی ایشیائی ممالک کی طرح دیگر ملکوں میں بھی جسم فروشی کے لیے جاتے ہیں۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک دو دہائیوں میں اچانک پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، مصر اور دیگر ترقی پذیر ممالک سے ہزاروں کی تعداد میں میڈیکل کے طلبا نے اس ملک کا رُخ کرنا شروع کر دیا اور یہاں بڑی تعداد میں میڈیکل یونیورسٹیاں اور کالجز بننا شروع ہو گئے۔ ان یونیورسٹیوں کے پانچ سے لے کر پندرہ پندرہ کیمپسز ہیں۔ مجھے 2015 میں جب میں پشاور یونیورسٹی میں ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ تھا۔ اس ملک اور اس کے تمام ہمسایہ ممالک میں جانے کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے ان ممالک کا تعلیمی نظام ان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کو جا کر دیکھا ہے۔
کرغیزستان کے تعلیمی اداروں کا حال انتہائی ناگفتہ بہ تھا، اور وہاں کسی کو بھی انگریزی زبان نہیں آتی تھی، سارے لوگ کرغیز اور روسی زبان میں بات چیت کرتے تھے، کہیں کہیں ازبک زبان بھی لوگ بول لیتے تھے، ان کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں تھیں۔ کرغیز حکومت کی یہ بہت بڑی خواہش تھی کہ وہ پاکستانی یونیورسٹیوں کے سات ایم او یو سائن کریں۔ اور ان ایم او یوز کا ایک ہی بنیادی مقصد تھا کہ پاکستانی یونیورسٹیاں ان طلبا کو جن کو وہ داخلہ نہیں دے سکتی ہیں، قائل کریں کہ وہ کرغیز یونیورسٹیوں میں داخلہ لیں جس میں انہیں مختلف رعایتیں دی جائیں گی۔
یہاں تک تو ان کا مطالبہ کسی حد تک درست تھا۔ مگر یہ ساری باتیں بتانے والے اور پاکستان کی یونیورسٹیوں کو ایم او یو کے لیے راغب کرنے والے لوگ کرغیز نہیں تھے بلکہ یہ پاکستانی ہی تھے جن کا تعلق لاہور اور پنجاب کے کچھ شہروں سے تھا۔ یہ زیادہ پڑھے لکھے اور تعلیم کے شعبہ کے ماہرین بھی نہیں تھے۔ میں نے جب کرغیز یوں سے معلوم کیا کہ ان لوگوں کو انہوں نے بطور ترجمان رکھا ہے۔ تو ان کا جواب بہت چونکا دینے والا تھا۔
کہ یہ سب لوگ جو ہندوستانی، بنگلہ دیشی، پاکستانی، ترک اور مصری ہیں یہ یہاں تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں۔ ان لوگوں نے یہاں بہت انویسٹمنٹ کی ہے۔ جن دو پاکستانی حضرات سے میری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ ٹریول ایجنٹ تھے۔ اس دور میں جو پمفلٹ انہوں نے ہمیں دیے تھے وہ لاہور سے چھپ کر گئے تھے۔ جن کو پڑھ کر حیرت ہوتی تھی کہ وہاں میڈیکل میں داخلے کی شرائط صرف بارہ برس کی تعلیم تھی، اور کوئی دوسری شرط نہیں تھی اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ طالب علم کو سو فیصد یقینی پانچ برس میں ایم ڈی کی ڈگری دی جائے گی، جس کو وہی ادارے پاکستان کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل سے پاس کرنے کی ذمہ داری بھی لے رہے تھے۔
ایسا دنیا میں شاید ہی کہیں ہوتا ہو گا۔ میں جس یونیورسٹی سے گیا تھا اس کا میڈیکل کی تعلیم سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اس لیے میں نے اس وقت زیادہ کریدنے کی کوشش نہیں کی لیکن وہاں موجود جو ایجنٹ تھے انہوں نے بار بار آفر کی کہ جو طلبا آپ کی توسط سے آئیں گے ہم اس کا آپ کو معقول کمیشن دیں گے۔ اور آپ ہمارے وہاں نمائندہ بن جائیں۔ جس پر ہم نے ہنس کر ان کو ٹال دیا تھا۔ بشکیک میں ایک مخصوص جگہ پر بہت زیادہ تعداد میں ہاسٹل تعمیر ہوئے تھے جن میں ہزاروں کی تعداد میں طلبا رہائش پذیر تھے اور ان علاقوں کا انتظام پاکستانی اور زیادہ تر ہندوستانی لوگوں کے ہاتھوں میں تھا۔
اس علاقہ میں جاکر ایسا لگتا تھا کہ جیسے بندہ پاکستان آ گیا ہو اور لاہور یا راولپنڈی میں کہیں گھوم رہا ہو مگر ایک فرق تھا وہ یہ کہ سینکڑوں کی تعداد میں کرغیز اور ازبک جسم فروش عورتیں ہر جگہ آپ کا پیچھے کرتی تھیں اور چند سو پاکستانی روپوں کے عوض جسم فروشی کی پیشکش کرتی تھیں۔ اس ماحول اور صورتحال کو دیکھ کر ہم نے وہاں دس پندرہ منٹ سے زیادہ وقت نہیں گزرا اور وہاں سے بخیر وعافیت رخصتی کو غنیمت جان کر اپنے ہوٹل کا رُخ کیا۔
جن چند پاکستان طالب علموں سے وہاں بات چیت ہوئی ان سب کا کہنا تھا کہ پڑھائی اور پریکٹس نام کی کوئی شے وہاں پر نہیں ہے۔ مگر سب طالب علم لازمی پاس ہوتے ہیں اور بہتر گریڈز کے لیے اضافی پیسے دینے پڑتے ہیں۔ یہی حالت جلال آباد اور اوش کے شہروں میں بھی تھی۔ ان تینوں شہروں میں پاکستانیوں کی اتنی زیادہ تعداد تھی کہ حیرت ہوتی تھی کہ یہ اتنے سارے پاکستانی یہاں کیسے آ گئے۔ ان شہروں کی یونیورسٹیوں کے میڈیکل کالجز کے کیمپسوں میں جاکر ایسا لگتا تھا کہ یہ پاکستان اور انڈیا کے شہر ہیں۔
کمال دیکھیں کہ ہم مختلف ریستورانوں میں کھانے کھانے گئے مگر کسی ایک جگہ کوئی انگلش سمجھنے والا نہیں تھا، میں ازبکی زبان بول سکتا تھا تو کوئی نہ کوئی ازبکی بولنا والا مل جاتا تھا تو اس سے بات چیت ہو پاتی تھی۔ وہاں سارے پاکستانی، انڈین، بنگلہ دیشی اور دیگر ممالک کے لوگ اپنے اپنے ایجنٹوں کے فراہم کردہ علاقوں، گھروں اور ہاسٹلوں میں رہائش پذیر تھے۔ کرغیز لوگ ان غیر مقامی افراد کو کچھ زیادہ پسند نہیں کرتے تھے، اور ان کا خیال تھا کہ یہ باہر سے آئے لوگ ان کی زندگی کے لیے عذاب بنتے جا رہے ہیں۔
وہاں سے واپسی پر میں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ پی ایم ڈی سی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے حکام بالا کے علم میں یہ بات لاؤں کہ اس ملک کو پاکستانی طلبا کے لیے میڈیکل تعلیم میں بین کر دیں مگر باوجود کوششوں کے میں اس میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ یہ لوگ جو یہاں میڈیکل کالجز اور ہاسٹل چلا رہے ہیں یہ کون ہیں۔ تو اس سوال کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ انسانی سمگلروں کا وہ مربوط نیٹ ورک ہے جو انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، ایران، ترکی اور کئی دیگر ممالک میں مصروف کار ہے جو ان غریب ممالک کے لوگوں کو مختلف زمینی اور سمندری راستوں سے یورپ لے جاتے ہیں یا بھجواتے ہیں۔
ان کا آپس میں تعلق بہت مستحکم ہے۔ کرغیزستان ان کے لیے جنت ہے اس لیے کہ ان ممالک سے لوگوں کو یہاں لاکر ایک ماہ یا اس سے کچھ زیادہ عرصہ ٹھہراتے ہیں۔ ان سے اس رہائش اور خوراک کی مد میں خطیر رقم لیتے ہیں۔ اور پھر ان لوگوں کو قازقستان اور بیلاروس اور کئی دیگر راستوں سے یورپ بھیجتے ہیں۔ یہ راستے ایران، ترکی اور دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہت آسان اور کم خطرے والے ہیں۔ *کرغیزستان جانے کے لیے اس کی سٹوڈٹنس ایزی پالیسی کا سہارا لیا جاتا ہے اور پھر وہاں سے زیادہ تر افراد کو یورپی روس کے ملکوں کے ویزے بھی باآسانی مل جاتے ہیں۔
یوں یہ ملک غیر قانونی طور پر یورپ جانے والوں کے لیے عالم برزخ کا کام دیتا ہے۔ اس کام کو قانونی شکل دینے کے لیے یہاں میڈیکل کالجز بنائے گئے اور پھر یہ سلسلہ اتنا بڑھ گیا کہ یہ بذات خود ایک بہت بڑے کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ پاکستان کے عاقبت نااندیش حکمران اور لالچی اور رشوت خور ٹولا ان کالجوں سے ڈگری لینے والوں کو یہاں کے میڈیکل کی ڈگری کی توثیق کے امتحانوں میں پاس کر دیتا ہے اور یہ نااہل اور نالائق لوگ جو ایف ایس سی میں پچاس فیصد نمبر لینے کے قابل نہیں تھے انہیں انسانی جانوں کے ساتھ کھیلنے کی کھلی اجازت اور سرٹیفکیٹ دے دیتے ہیں۔
اس وقت اس ملک میں پاکستان کے ہزاروں طلبا میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن کی مد میں کروڑوں ڈالرز کا زرمبادلہ اس ملک سے جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں جو ڈگریاں لے کر یہ لوگ واپس آرہے ہیں ان کی استعداد کار اور اس شعبہ میں صلاحیت اور مہارت انتہائی ناقص ہے۔ ان کے داخلے اور امتحان کا نظام قابل اعتبار نہیں ہے۔ وہاں رہنے والے طلبا کا اخلاقی معیار بہت زیادہ گر چکا ہوتا ہے اس لیے کہ اس مادر پدر آزاد معاشرے میں جہاں سو پاکستانی روپوں میں جنسی بھوک مٹانے کی سہولت دستیاب ہو وہاں کیا خاک لوگ تعلیم حاصل کریں گے۔
وہاں سے یہ طالب علم ایڈز اور دیگر بیماریاں لے کر اس ملک میں آرہے ہیں۔ اس ملک کے لوگوں کو کون سمجھائے کہ ڈاکٹر بننا ہی بہتر زندگی کی ضمانت نہیں ہے اگر ان کے بچے پاکستان میں ڈاکٹرز نہیں بن پا رہے ہیں تو انہیں کسی اور شعبہ میں لے جائیں جہاں سے وہ عزت اور صحت مند زندگی کے ساتھ کامیاب ہو کر اپنی زندگی گزاریں گے۔ وہ ملک جو اس وقت پاکستان سے بھی تعلیمی صورتحال میں بد تر ہے وہاں لاکھوں روپے سالانہ خرچ کر کے بچوں کی زندگیاں کیوں تباہ کر رہے ہیں۔
اور پاکستان حکومت کے وہ ادارے جو ان کے سہولت کار بن رہے ہیں ان کو پوچھنے والا کوئی کیوں نہیں ہے۔ آج سے چار برس پہلے جب ان پر پابندی لگائی گئی تھی تو یقیناً اس کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ پھر اس پابندی کو کن لوگوں نے ختم کیا اور ان ہزاروں بلکہ لاکھوں ڈگری ہولڈرز کو پی ایم ڈی سی کے امتحان میں کس نے پاس کروایا اور ان کو پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں پاکستانی سرکاری اعلی درجہ کے میڈیکل کالجوں کے فارغ التحصیل ڈاکٹروں کو چھوڑ کر کس نے نوکریاں دیں۔
کیا پی ایم ڈی سی کو پی ایم سی میں تبدیل کرنے کی وجوہات کبھی اس قوم کو بتائی جائیں گی۔ کیا ان اداروں میں کام کرنے والوں کے اثاثے اور بیرون ملک اثاثوں کی چھان بین کوئی ادارے کرے گا۔ کیا کوئی عدالت ان کو بلا کر ان سے کچھ پوچھنے کی جرات کرسکے گی۔ یہ کام چھپ کر نہیں ہو رہا بلکہ سرعام ہو رہا ہے ہر برس جب سیزن شروع ہوتا ہے سینکڑوں ایجنٹس ان طالب علموں کو راغب کرنے کے لیے بڑے بڑے شہروں اور اب تو چھوٹے چھوٹے قصبات اور گاؤں گاؤں کیمپ لگاتے ہیں، انسانی سمگلر جو ہر جگہ موجود ہیں انہیں طالب علموں کو لانے کے لیے کمیشن دیا جاتا ہے۔
جو طلبا وہاں پہلے سے ہیں انہیں نئے طلبا کو ورغلا کر وہاں لانے پر کمیشن ملتا ہے۔ اس کمیشن کے چکر میں وہ کم بخت اپنے رشتے داروں اور گاؤں کے دیگر بچوں کو راغب کرتے ہیں اور انہیں مصنوعی جنت کے قصے اور بغیر محنت کے ڈگری کا بتا کر وہاں لے جاتے ہیں، اگر ڈیٹا نکالا جائے تو زیادہ تعداد میں وہ بچے نکلیں جن کا تعلق ایک ہی ضلع یا پھر ایک ہی قصبہ یا گاؤں سے ہو گا۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی لوگوں نے اپنی معصوم بچیوں کو وہاں بھیجا تھا، کیا کوئی باہوش و حواس باپ اپنی بیٹی کو ایسی جگہ بھیج سکتا ہے جہاں کی اپنی عورتوں کا کام جسم فروشی ہو اور جہاں کے بیشتر مرد اس کام میں دلالی پر مامور ہوں۔
یہ ایجنٹ ان نادان بچوں کے سامنے کرغیزستان اور اس جیسے دیگر ملکوں کی جو خیالی تصویر بنا کر دکھاتے ہیں اس کی رنگینی میں وہ کھو جاتے ہیں اور ان کے والدین کو جو خواب دکھائے جاتے ہیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ لوگ قرض لے کر اور زمینیں بیچ بیچ کریا پنشن کے تمام پیسے ان پر لگا دیتے ہیں۔ جس کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس ملک میں سرکاری محکموں اور اداروں میں اختیارات کا استعمال اپنے ذاتی فائدے اور پاکستان کی تباہی کے لیے سرعام کیا جاتا ہے۔
مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔پھر جب کوئی قیامت ٹوٹتی ہے تو ہر سیاسی جماعت اور نام نہاد سوشل ایکٹیوسٹ سرگرم ہو جاتے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو سیاسی طور پر نیچے دکھانے کے لیے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پی ایم ڈی سی ملک کے اندر تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے کام کرنے کی بجائے ان کاموں میں مصروف کار ہیں۔ اگر کوئی اس کاروبار کا سراغ لگائے تو ان اداروں کے کئی ایک اعلی عہدہ دار اس میں شریک اور ملوث نکلیں گے۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انگریزی وہاں کوئی بول نہیں سکتا اور اردو میں میڈیکل کی تعلیم دینے کا رواج یہاں بھی نہیں ہے تو یہ طالب علم کیسے وہاں سے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ جو بچہ یہاں پچاس فیصد نمبر نہیں لے سکتا جہاں لاکھوں کی تعداد میں طلبا نوے فیصد سے زیادہ نمبر لیتے ہیں وہ ایک اور نظام میں جا کر کیسے پڑھ اور سیکھ سکتا ہے۔ داخلہ لینے کے لیے ایجنٹ کو پیسے دیں یا پھر ان کی ویب سائٹ پر جاکر فارم بھریں اور پاکستان میں موجود ان کا ایجنٹ فوراً ان کو ویزے کے لیے تمام ڈاکومنٹس ایک گھنٹے کے اندر تیار کر کے فراہم کر دیتا ہے لیکن فیس پہلے جمع کرواتا ہے اور ایک یا دو دنوں میں ویزے لگوا کر انہیں یہاں سے روانہ کر دیا جاتا ہے۔
جہاں سے ان طالب علموں کی تباہی کا سفر شروع ہوتا ہے اور پانچ برس بعد یہ سفر مسلسل والدین کا خون چوس چوس کر پیسے منگوانے اور عیاشی کرانے کے بعد ختم ہوجاتا ہے اور یہ طالب علم نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھوا کر واپس پہنچ جاتے ہیں اور پھر سفارشوں اور رشوتوں سے میڈیکل پریکٹس کے لیے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں اور جو افورڈ کر سکتے ہیں وہ خطیر رقم خرچ کر کے پاس ہو جاتے ہیں اور جو ایسا نہیں کر سکتے وہ برسوں اور کبھی کبھی دہائیوں تک سرکاری اور پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکوں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں یا کہیں پر جاکر بغیر پی ایم ڈی سی کے سرٹیفکیٹ کے عطائی ڈاکٹر بن کر کام کر رہے ہوتے ہیں۔
انسانی سمگلنگ ایک مکروہ دھندا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کی سالانہ جانیں چلی جاتی ہیں، ہزاروں کی تعداد میں پاکستان سالانہ اپنے اربوں روپے ان نوسر بازوں کے ہاتھوں لٹا دیتے ہیں۔ مگر حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کرتی۔ کرغیز ستان کے میڈیکل کالجز کا اصل دھندا یہی ہے، ذرا ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں کہ کتنے پاکستانیوں نے کرغیز ستان تک تعلیم کے لیے سفر کیا اور کتنے واپس آئے آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے۔ عجیب ملک جہاں ایک دوسرے کی خواب گاہوں میں تو کیمرے لگا دیتے ہیں اور ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ سال کے بارہ ماہ کیسے داخلے جاری رہ سکتے ہیں اور پوری دنیا میں ایک دفعہ یا دو مرتبہ تعلیمی سال کے شروع میں داخلے ہوتے ہیں۔
لیکن کرغیزستان کے ان نام نہاد یونیورسٹیوں میں آپ کسی بھی وقت داخلہ لے سکتے ہیں۔ اور ہمارے عقل کے اندھوں کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ انسانی سمگلنگ کے لیے اس ملک تک رسائی کا کاروبار ہے اور کچھ نہیں۔ حالیہ دنوں میں جب یہ واقعات ہوئے ہیں تو انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا سے ان مافیاز اور ایجنٹوں نے اپنے بیشتر اشتہار اور معلومات ہٹا دی ہیں۔ یہ چند ماہ تک زیر زمین چلے جائیں گے اور پھر زر کے پجاریوں کی مدد سے پاکستان کے نوجوانوں کو لوٹنے کے لیے دوبارہ سرگرم ہوجائیں گے اور ہماری عدالتیں اور اداروں کی کان پر جوں تک نہیں رینگے گی۔