یسین سے الرحمن تک کا سفر
: یوسف الماس
انسان کے خالق نے اسے دل دیا ہے۔ انسانی جسم میں اس کی حیثیت ایک بادشاہ کی ہے جو طرح طرح کی خواہشات رکھتا ہے۔ ارادے بناتا ہے۔ بڑے بڑے خطرات مول لیتا ہے۔ بظاہر ناممکن کام بھی کر گزرتا ہے۔ عقل اور شعور ہر سطح اور ہر لحاظ سے رک جاتے ہیں جبکہ یہاں کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے دل میں یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ جو چاہے انسانی جسم کے ہر ہر عضو سے وہ کام کروالے۔
انسان کو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت دی ہے۔ یہ صلاحیت کائنات کی کسی مخلوق کے پاس نہیں ہے۔ ہر چھوٹے بڑے معاملے کے فوائد اور نقصانات کا تجزیہ صرف انسان کے بس میں ہے۔ ماضی کا تجزیہ اور مستقبل کا محفوظ اور مفید منصوبہ تیار کرکے حال کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف کرنا انسانی دماغ کا ہی کمال ہے۔ انسان کے اندر کی دنیا کو جاننا اور وسیع و عریض کائنات میں اپنا بہتر مقام بنانا ، دماغ کے ہی کارنامے ہیں۔
یہ دونوں ۔۔۔ بادشاہ اور وزیر باتدبیر ۔۔۔ اپنی اپنی جگہ درست کام کر رہے ہوں تو ان کے پاس انسانی جسم کی بہترین ورک فورس موجود ہوتی ہے۔ جس سے کام لیتے ہوئے فاروق اعظم ؓ ، عمر ثانی، سکندر اعظم سے لے کر کائنات کے ہر ہر شعبے میں نامور لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے دنیا کے بہاؤ کو اپنی مرضی سے بہا دیا۔ اہل علم نے اپنے دائرے میں، اہل حرفت نے اپنے دائرے میں، حکومت اور سلطنت والوں نے اپنی سطح پر اور اسی طرح ہر کسی نے اپنی اپنی سطح پر۔
انسان کے خالق و مالک نے ہر انسان کو دل و دماغ اور دیگر جسمانی فورسز دی ہیں۔ جو کچھ اس انسان کو دیا ہے کائنات کی کسی دوسری مخلوق کو نہیں دیا۔ انسان کو جس طرح کا ظاہری طور پر خوبصورت بنا یا ہے ویسی وجاہت اور خوبصورتی کسی کو نہیں دی۔ جو اندرونی طاقتیں دی ہیں وہ بھی کسی دوسرے کو نہیں دیں۔ اس کی عظمت کو فرشتوں سے تو منوایا گیا مگر جنگل کے درندوں نے بھی اس کے شرف اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے راستہ بھی دیا اور اس کی حفاظت بھی کی۔
یہ سب کچھ دینے والے نے ہر کسی کو دیا بھی اور ہر حال میں استعمال کی اجازت بھی کھلی رکھی۔ کوئی اس کو مانے یا نہ مانے اس تفریق کے بغیر اس نے ہر کسی کو کھلی اجازت دے رکھی ہے کہ جو چاہو کرو، جس طرح چاہو میری دی ہوئی ان نعمتوں کو استعمال کرو۔ بس یاد رکھنا کہ جیسے روز تمہارے سامنے بعض لوگوں کا جسم جواب دے دیتا ہے۔ بادشاہ اور وزیر سے لے کر تمام ہی فورسز رک جاتی ہیں۔ تم خود ہی انہیں مردہ Dead بولتےہو اور پھر اپنے گھر سے نکال دیتے ہو ۔
اگر تم نے اپنا استعمال درست رکھا تو اس کے فوائد ہی فوائد تمہیں ملیں گے۔ اگر کچھ اور کروگے تو تمہارا ہاتھ تو کوئی نہیں پکڑے گا مگر تم خود ہی بے چینی اور بے زاری کا شکار ہونے لگو گے۔ اس بے چینی اور بیزاری کا اظہار کئی طریقوں سے ہوگا۔ پھر تم محسوس کروگے کہ زندگی رکنے لگتی ہے۔ زندگی اپنا دامن تنگ کررہی ہے۔
ان حالات میں سوچتا ہوں کہ کیا کوئی ایسا انجینئر ہوگا جو یہ پسند کرے کہ اس کی بنائی ہوئی پراڈکٹ مارکیٹ میں جا کر ناکام ہوجائے یا اسے روز روز بعد از فروخت After Sale Service دینی پڑے۔ معمولی سے معمولی عقل رکھنے والا بھی اس سے انکار کرے گا۔ تو کیا اس کائنات میں صرف انسان کا بنانے والا ہی ایسا رہ گیا ہے کہ جس کی پراڈکٹ اگر ناکام ہوجائے تو اسے پرواہ نہ ہو۔
اصل معاملہ یہ ہے کہ انسان نے خود ہی اپنے آپ کو مختلف مسائل میں الجھا کر اور غلط راستوں پر چل کر زندگی کو پریشانیوں سے بھر لیا ہے۔ تب قدم قدم پر زندگی رکتی محسوس ہوتی ہے ۔ ہر راستہ بند گلی لگتا ہے۔ دن بھی رات کا احساس دلاتا ہے اور رات کانٹوں کی طرح چبھتی ہے۔ آنسونکلیں تو دنیا ملامت کرتی ہے نہ نکلیں تو ضمیر بوجھل ہوجاتا ہے۔ یہ سارا کیا دھرا اس کا اپنا ہی ہوتا ہے۔ کچھ حالات کے جبر میں اور کچھ اپنی تسکین کے لیے۔ کچھ غلط مشوروں کو من و عن لینے میں اور کچھ اپنی خواہشات کی تکمیل میں۔
میں اسے زندگی کا رکنا یا بند گلی نہیں سمجھتا۔ میرے نزدیک یہ بھی انسان کے خالق کی طرف سے ایک حکمت ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں، انسان کی مشینری کا انجن سلف سٹارٹ نہیں کک سٹارٹ ہوتا ہے۔ انسان کی چھپی وہ تمام صلاحیتیں جو سو رہی تھیں۔ وہ بیدار ہوجاتی ہیں۔ بادشاہ چاروں طرف خطرات محسوس کرکے وزیر اور دیگر فورسز کی پوری طاقت اکٹھی کرتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے رکتی زندگی چل پڑتی ہے۔ جہاں سورہ یٰسین کی تلاوت شروع ہوئی تھی وہاں سورہ الرحمٰن کی آوازیں آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ بس ضرورت سوچ سمجھ کے ساتھ درست سمت قدم لگانے کی ہے۔