یہ تو میں بھی کرسکتا تھا
: یوسف الماس
اس کائنات میں ہر ذی شعور انسان تخلیقی صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ رب العالمین نے اپنی ہر تخلیق میں انفرادیت رکھی ہے ۔ لہٰذ اہر انسان کی صلاحیت کا رخ اور انداز دوسرے سے مختلف ہوگا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک اپنے ذہن میں آنے والے خیالات و افکار پر توجہ دیتا ہے اور کچھ کر گزرتا ہے جبکہ دوسرا انہیں اہمیت نہیں دیتا۔ اور بعد میں کہتا ہے کہ ”یہ تو میں بھی کرسکتا تھا۔“ یا بعض اساتذہ کسی کو کہتے ہیں کہ ”آپ نے کیوں نہیں کیا ؟ “ وغیرہ ۔
پس اگر طالب علم اپنی صلاحیتوں سے واقفیت حاصل کرلے اور اسی کے مطابق اپنا راستہ متعین کرے تو کامیابی کی شرح بہت اوپر چلی جائے گی۔ دوسری جانب طالب علم معاشرے کو بھی کچھ فراہم کرے گا۔ جو اپنی جگہ ایک مفیدکام ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر طالب علم اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو پہچانے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کے سفر کو کامیابی اور کامرانی سے طے کرے۔
صلاحیت کی نشوونما
طلبہ و طالبات کے لیے ایک بہت ہی اہم سوال صلاحیت کی نشوو نما ہے۔ والدین بھی اکثر یہ سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ بچے / بچی کی صلاحیتوں کی نشوو نما کس طرح ممکن ہے۔میرا یہ ایمان ہے کہ اللہ رب العالمین نے جس انسان کو اس دنیا میں بھیجا ہے اور صحت کے اعتبار سے بالکل صحیح و سلامت ہے تو وہ ایک باصلاحیت انسان ہے ۔ اس کے بعد دو سوال بچتے ہیں ، پہلا ، صلاحیت ہے کیا؟ اور دوسرا ،اس کی نشوو نما کیسے ممکن ہے ؟ صلاحیت کی پہچان کے حوالے سے ایک دوسرے مضمون میں تفصیل سے بتا چکا ہوں۔ یہاں صرف خداداد صلاحیتوں کی نشوونما کے حوالے سے چند اہم باتوں کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
- میں باصلاحیت ہوں، میں یہ صلاحیت رکھتا ہوں۔ بظاہر یہ بڑے عام سے جملے ہیں مگر حقیقت کے اعتبار سے انسان کی اندرونی کیفیت کا اظہار بھی ہیں اور کامیاب زندگی کا نکتہ آغاز بھی ہے۔ یہی اپنی ذات پر اعتماد اور پختہ یقین خداداد صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتا ہے۔
- اپنے اندر کے انسان کی آواز کو توجہ سے سننا اور کسی بھی معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک سے زائد تدابیر اور خوبصورت ترین اسلوب کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ ذہنی مشق(practice)اس میں بہتری لائے گی ۔
- اپنی کسی تدبیر کی ناکامی کا خدشہ دل میں نہ لائیں ۔ ایک ناکامی آپ کو سینکڑوں کامیابیوں کی راہیں دکھائے گی۔ لیکن اگر ناکامی کے خوف سے کوئی چیز سامنے نہیں آئے گی تو آپ چند قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔
- پرانی اور نئی کتب ، رسائل و جرائد اور تحقیقی مقالوں کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔ اس مطالعہ سے آپ کا ہدف نئی سے نئی تدبیر کی تلاش ہے ۔ نئے راستوں کی تلاش ہے۔ نئے رنگ اور آہنگ پیش کرنا ہے۔
- ذہنی کینوس پر ظاہر ہونے والے ہر آئیڈیااور سوچ کو روزانہ کی بنیاد پر اُسے محفوظ کریں۔ گاہے بگاہے اسے لکھتے رہا کریں۔ تمام جمع شدہ مواد میں مزید ترقی اور خوبصورتی کے بارے میں سوچتے رہا کریں۔
- روز مرہ کے معمولات سے ذرانکل کر آرام اور تنہائی میں کچھ وقت صرف کریں۔ یہ چیز آپ کے خیالات کو مجتمع کرے گی اور انہیں عملی شکل دےنے میں مدد دے گی۔
- اپنے مطالعے اور دلچسپیوںمیں تنوع (Variety)رکھیں۔ ذہنی زرخیزی اور اسکی آبیاری کے لیے یہ بہت ضروری ہے ۔
- گاﺅں گاﺅں اور شہر شہر کا سفر انسان کے اندرونی اور بیرونی منظر نامے کوبدل دیتا ہے۔ مختلف تہذیب و ثقافت، رسوم و رواج اور رویے اور برتاﺅ ذہنی آسودگی کے علاوہ نئے نئے در کھلتے ہیں۔
- باصلاحیت لوگوں سے دوستی اور تعلق آپ کی صلاحیت کو پروان چڑھائے گی۔
- بچے من کے سچے اور جدت کے پکے ہوتے ہیں۔ ایک ہی بات اور اندازا نہیں فوراً بور کردیتا ہے۔ وہ ہر لمحے نئی سے نئی چیز مانگیں گے۔ لہٰذا ن کے ساتھ کھیل اور بات چیت ایک طرف آپ کو بچپن کے تخیلاتی زمانے میں لے جائے گی اور دوسری طرف بہت سے نئے خیالات بھی مل جائیں گے۔
- لکھنا ایک ایسا کام ہے جو آپ کے تمام تر تخلیقی کام کو دوام بخشے گا اور پختگی بھی لائے گا۔ لہذا روزانہ لکھنے کی عادت ڈالیں۔
- آخری بات یہ ہے کہ اگر میں یہ کام اس طریقہ سے کرتا ہوں تو دوسرے اسے کیسے دیکھیں گے، کیا سوچیں گے اور کیا سمجھیں گے ؟