ضمیر کی مجرم تو نہ بنوں
: یوسف الماس
وہ بہت ذہین اسٹوڈنٹ تھی۔ آنکھوں میں اعتماد تھا۔ عادات میں روایت اور سلیقہ نظر آتا تھا۔ لڑکپن تو تھا ہی مگر اس کی شخصیت پر گھر ، خاندان اور ادارے کے اثرات نمایاں تھے۔ سلام کرنا اور اٹھنا ، بیٹھنا بتاتا تھا کہ ماں ابھی " زندہ" ہے۔ اس لیے کہ مائیں "زندہ" ہوں تو پہناوے کے رنگ ڈھنگ سے لے کر نوٹ بکس کی خوبصورتی میں طور طریقے کی جھلک نظر آتی ہے۔ اس نے بہت محنت سے پڑھائی کی تھی ۔ اس کی گفتگو بتا رہی تھی کہ اس نے دل جما کر اپنے Concepts کو پختہ کیا ہوا ہے ۔ اسے اردو اور انگلش پر یکساں عبور حاصل تھا جنہیں وہ با آسانی اپنی گفتگو میں استعمال کر رہی تھی ۔ بات کرنے کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ ایک بہترین مقررہ ہے اور کھلی مسکراہٹ کے پیچھے گہری سنجیدگی سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ اچھی رائٹر بن سکتی ہے۔
والد مناسب آمدنی والاسلجھا انسان ہے۔ تعلیم بھی اچھی ہے اور علم بھی کم نہیں ۔ عمل بھی اچھا ہے ۔ فرائض ادا کرتا ہے۔ زندگی کے تمام جھمیلوں میں سرگرم کردار ادا کررہا ہے۔ استفغفار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ۔ جانتا ہے کہ بچوں کی تربیت میں استغفار کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں اور بچوں کو جیب خرچ دینے کے ساتھ ساتھ انہیں اعتماد، اخلاق و کردار بھی اسی نے دینا ہے۔ بات کرتے وقت صاف معلوم ہوتا تھا کہ بچوں سے کس قدر پیار ہے مگر "شیر والی آنکھ بھی بند نہیں کر رہاتھا" مجھے کہہ رہا تھا کہ میری بیٹی کی بات توجہ سے سنیں، میں تو آپ کو جانتا نہیں۔ اس نے آپ کو تلاش کیا ہے۔ یہ کہتی ہے کہ مجھے ا ن انکل پر اعتاد ہے۔
اسٹوڈنٹ نے بتانا شروع کیا کہ میٹرک میں 1012 نمبر ہیں اور ایف ایس سی پری میڈیکل میں 1004 نمبر ہیں ۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا پڑھوں۔ آگے کیا کروں۔ وہ کہہ رہی تھی کہ میرے نمبر بہت اچھے ہیں مگر مجھے ڈاکٹر نہیں بننا۔ میں ڈاکٹر بن کر کیا کروں گی۔ ساری عمر لوگوں کی نبضیں ۔۔۔۔میں نہیں پکڑ سکتی۔ یہ شعبہ مجھے کیا دے گا۔ میرا تو سارا محلہ بیمار ہے۔ اسے اخلاق اور کردار کا کینسر ہوگیا ہے۔ بے حیائی اور ڈھٹائی کا ناسور پھیل رہا ہے۔ ماں نوکرانی بن گئی ہے۔ باپ ملازم ہے یا اے ٹی ایم کارڈ۔
میں نے اسے روکنے کی کوشش کی مگر وہ میری بات سننے کو تیار نہ تھی۔ اس کی آواز بلند ہورہی تھی مگر الفاظ حلق میں پھنس رہے تھے۔ اس عمر میں ماتھےپر آتی جاتی شکنیں اور سوشل ایشوز پر ملال مجھے ایک جانب حیران کررہا تھا اور دوسری جانب اس کا وژن اور پختگی مجھے حوصلہ دے رہی تھی کہ میرا معاشرہ ابھی زندہ ہے ۔
اس کا کہنا تھا ۔ انکل میری سنیں ۔ میں نے آپ کے علاوہ کئی لوگوں کی ویڈیوز دیکھی ہیں مگر میں آئی صرف آپ کے پاس ہوں۔ اس لیے کہ میراخیال ہے کہ میرے مرض کا علاج صرف آپ کے پاس ہے۔ لہٰذا میری ساری بات سنیں۔
انکل مجھے بتائیں سردرد کے لیے تو ڈاکٹر ہے لیکن سر کے اندر کی بیماری کا علاج کون کرتا ہے۔ میں ہوسٹل میں رہی ہوں جانتی ہوں یوتھ کیا سوچتی ہے۔ اس کا انجام کیا ہوگا؟ ڈگری کے نام پر ملنے والے کاغذ کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔ میرے بھائی بےکار پھرتے ہیں۔ بے مقصدیت نے بدنظری اور کوتاہ نظری کو عام کیا ہے۔ میری بہنیں ہر چمکتی چیز کو سونا سمجھتی ہیں۔ کون انہیں تہذیب اور سلیقے سے ساجھ ئے کہ حقیقت کچھ اور ہے ۔
وہ اپنی بات جاری رکھے ہوئی تھی اور کہہ رہی تھی کہ انکل لوگ سمجھانے کے نام پر مزید خرابی کرتے ہیں۔ سول لائیزڈ Civilized ہونے کے نام پر اقدار اور روایات کا خاتمہ کرتے ہیں۔ایک بڑا ظلم یہ ہوا ہے کہ اچھائی اور بھلائی کی علمبرداری معاشرے کے کمزور خاندانوں میں چلی گئی ہے، جو اپنی ناک سے آگے دیکھ نہیں سکتے۔ ان میں بھی اگر کوئی جوہر قابل ہے تو اس کی منزل بھی متعین کردی گئی ہے کہ ڈاکٹر یا انجینئر ۔ ان میں بھی عزت اسی کی ہے جو MCAT اور ECAT کا میرٹ بناتا ہے۔
وہ کہہ رہی تھی کہ انکل میرا باپ مجھے الیکشن لڑا نہیں سکتا کہ اسمبلی میں آکر کوئی کردار ادا کروں۔ مجھے کوئی ایسی طاقت بھی نہیں دے سکتا کہ میں معاشرے کا رخ پھیر سکوں۔ میں آپ کے پاس آئی ہوں کہ آپ بتائیں میں کیا کروں۔ کم از کم اتنا تو ہو کہ میں اس معاشرے میں زندوں کی طرح رہ سکوں ۔ اپنے ضمیر کی مجرم تو نہ بنوں۔
میں نے اس کی ساری باتیں سنیں۔ اللہ کا شکر ادا کیا ۔ طلبہ و طالبات حقیقی اعتماد کرتے ہیں ۔ اللہ سے دعا کی اے میرے رب! تو مجھے ان کی توقعات سے بہتر بنا دے۔کچھ روایتی اور کچھ غیر روایتی سوالات پوچھے۔ اس کی باتوں کو ترتیب دیا اور سمت درست کی۔ دو گھنٹے سے زائد وقت میں اس سے درجن بھر سرگرمیاں کروائیں۔
میں اس کی رپورٹ لکھنے بیٹھا تو خوش تھا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے ۔ ان میں سب سے بڑی نعمت اعلی صلاحیتوں کی حامل نوجوان نسل ہے۔ یہ نسل وہ طاقت رکھتی ہے جو ہواؤں کا رخ موڑ سکتی ہے۔ قربانی دینے کو باعث فخر سمجھتی ہے۔ایسےبچے بچیاں ایک دو نہیں بے شمار ہیں ، ضرورت یہ ہے کہ ان کا حوصلہ بڑھایا جائے۔ ان کی حفاظت کی جائے۔ ان کی رہنمائی کی جائے۔ ان کی مدد کی جائے۔ معاشرے کے جبر سے بچایا جائے تاکہ وہ معاشرے میں پوری طاقت سے اپنا کردار ادا کر کے حقیقی تبدیلی لا سکیں۔
کونسلنگ روم سے
یوسف الماس