سی ایس ایس کیا ۔ کیوں اور کیسے ؟
تحریر: یوسف الماس
آسمان دنیا اس بات پر گواہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہونےوالی انسانیت نے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ ان تمام اتار چڑھاؤ کے پیچھے بھی انسان ہی تھے۔ چونکہ انسانوں میں بعض کو اتنی اعلیٰ صلاحیت ملی ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کو 180 ڈگری کے زاویے پر تبدیل کردیتے ہیں۔ بعض کی صلاحیت کا کمال یہ ہوتا ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور وہ ہر طرح کی طاقت اور قدرت کا مرکز اور محور بن جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض انسان وہ ہوتے ہیں جن کے پاس زبان اور بیان کی وہ قابلیت ہوتی ہے کہ ان کے الفاظ جادو کا اثر رکھتے ہیں ۔ بعض زر اور زمین کا بہترین استعمال خوب جانتے ہیں۔ساتھیوں سے ملاقات کو حقیقی معنی دینے میں دیر نہیں لگاتے اور بعض وہ ہیں جو بین السطور بات کو آسانی سے سمجھنے اور بے رحم اور جرات مندانہ انصاف دے کر معاشرے کو امن بھی دیتے ہیں اور مضبوط بنیادیں بھی۔ یہی تو میرے رب کی اس دنیا کا حسن ہے۔ اگر وہ مختلف نوعیت کے لوگوں کو نہ بناتا تو یہ دنیا محض جنگل کا سماں دیتی اور انسانیت سسک سسک کر دم توڑ دیتی۔
برصغیر قدیم تہذیبی اور ثقافتی علاقوں میں سے ایک ہے۔ بہت پرانی اقوام کی وراثت بھی موجود ہے۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ قدرت نے اس خطے کو بے پناہ وسائل اور اموال سے مالا مال بھی کیا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی اس کی اہمیت سے دنیا کی کوئی طاقت آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔ اس لحاظ سے بھی یہ علاقہ بڑی بڑی سلطنتوں کا مالک رہا ہے۔ ایک خاندان کی حکومت صدی کی بادشاہت کہلاتی ہے۔ باہر سے بھی لوگوں نے قبضہ کیا۔ حکومتوں کا اتنا بڑا پھیلا ہوا نظام مضبوط حکومتی مشینری کے بغیر ممکن نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ ہر آنے والی حکومت نے اپنی ترجیحات اور اہداف Targets کے مطابق اس نظام میں رد و بدل ضرور کیا۔
انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے جب انگریزوں نے برصغیر میں حکومت قائم کی اور یہ علاقہ ان کی نوآبادیات میں آگیا تو اس وقت برصغیر میں شرح خواندگی 95٪ سے زیادہ تھی۔ انگریزوں نے لمبے عرصے کے لیے یہاں رہنے کا پروگرام بنایا تھا اور اس کے ساتھ معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں ان کی ترجیحات میں تھیں۔ اس لیے انہوں نے شعبہ تعلیم کو بنیاد سے ہی بدلنے کا فیصلہ کیا۔ دوسرے انتظامیہ، حکومتی مشینری Bureaucracy ، عدلیہ اور افواج کو مکمل طور پر اپنے رنگ میں تبدیل کیا۔ اس تبدیلی کے لیے انہوں نے الگ الگ نظام ترتیب دیئے ۔ ان جدید وضع کردہ نظاموں نے افراد کی سوچ، فکر، طرز عمل، اخلاق اور رویوں تک ہر چیز کو ایک خاص رخ دیا۔
کسی بھی حکمران کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اپنے مزاج اور ترجیحات کے مطابق حکومت کرنے اور اندرونی اور بیرونی خطرات سے اپنے آپ کو محفوظ بنانے کے لیے ان بنیادی اور اہم شعبوں کو اپنی آزاد مرضی سے ترتیب بھی دے اور تربیت Train بھی کرے۔ لہٰذا جب تک انگریز حکمران رہا تب تک تو یہ نظام رہنا ہی تھا مگر جب وہ گیا تو دونوں ملکوں نے محض نام بدل کر اسی نظام، طریق کار، پروٹوکول وغیرہ کو اختیار کرلیا۔
پاکستان میں حکومتی نظام چلانے اور اداروں کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لیے اس نظام کا سہارا لے کر سول سروسز آف پاکستان CSP کا نام دیا گیا اور دیر تک یہی چلتا رہا۔ اس زمانے میں لوگ اپنے نام کے ساتھ CSP لکھتے تھے۔ بعد میں اسے تبدیل کرکے سنٹرل سپیریئر سروسز کا نام دے گیا گیا۔ تب سے اب تک یہی چل رہا ہے۔ اس کے بارے میں بے شمار کہانیاں مشہور ہیں اور لاتعداد حقیقی واقعات بھی۔ میرے خیال میں سب سے بڑی مشکل ایسی معلومات، رہنمائی اور مشاورت کا نہ ہونا ہے جو میرے ملک کے اسٹوڈنٹس کو قدم بقدم انگلی پکڑ کر منزل تک پہنچائے اور اس کی تیاری کا طریقہ اور سلیقہ سکھائے۔
ڈاکٹر یا انجنیئر بننے کے لیے آپ اسکول سے ہی تیاری شروع کردیتے ہیں ۔ اکیڈمی اور دیگر تمام سرگرمیاں زور شور سے ہوتی ہیں۔ والدین سرمایہ لگاتے ہیں اور اساتذہ دن رات محنت کرواتے ہیں۔ حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور سختی بھی۔ جبکہ سی ایس ایس کا فیصلہ اس وقت ہوتا ہے جب دیگر تمام آپشنز ختم ہوچکے ہوتے ہیں۔ فیصلے کی پہلی بنیاد محض ایک کوشش Try کرنا ہی ہوتا ہے یا صرف یہ دیکھنا کہ یہ امتحان ہوتا کیسا ہے۔ بعض میڈیکل یا انجینئرنگ میں اپنی ناکامی کی خفت چھپانے کے لیے CSS کا اعلان کردیتے ہیں۔
BA/ B.Sc مکمل ہوئی ، ہونہار سپوت نے اچانک اعلان کردیا کہ میں سی ایس ایس کروں گا۔ اِدھر جا، اُدھر جا ، مصروفیات بڑھ گئیں، کتب خریدی جانے لگیں، ایک دو اخبار لگ گئے، اکیڈمیوں کے وزٹ کیے گئے، تیاری سے زیادہ، تیاری کا اہتمام ہونے لگا۔ پڑھنا شروع کیا، کوئی بات نہ سمجھ آرہی ہے نہ ہی دل لگ رہا ہے۔ خیال آیا کہ باقی چیزوں سے پہلے انگریزی پڑھنی چاہیے ۔ اب سارا زور انگریزی بہتر بنانے پر ہے۔ اب ایک اور مشکل آ گئی کہ کبھی کمر درد اور سر کا چکرانا جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔ ان حالات میں تو ظاہر ہے 2.5 یا 3 ٪ نتائج ہی آئیں گے۔
یہ تمام فیصلے طبعی میلان Inclination ذہنی رجحان ِApttitude شخصیت اور صلاحیت کو دیکھے بغیر کیے گئے ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کے نتائج اپنی مرضی کے لینا کسی صورت ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک خاص نوعیت کی قابلیتیں اور رجحان دیکر اس دنیا کے کچھ خاص کاموں کے لیے بھیجا ہے۔ اب انسان اگر اپنے اس فطری راستے اور کام کو تلاش کرے گا اور اس کے مطابق اپنی زندگی کے سفر کو آگے بڑھائے گا تو ہر قدم کامیابی کا ہوگا اور اعتماد ہر کام کو خوبصورت بھی بنائےگا ۔ دوسری صورت میں انسان فطرت سے زیادہ دیر لڑ نہیں سکتا۔ ہر قدم ان کے دل و دماغ کو پریشان بھی کرے گااور نتائج کے اعتبار سے ناکامی بھی مقدر بنے گی۔ اس لیے ہر فیصلہ معلومات پر مبنی اور حقائق کو سامنے رکھ کر بروقت کرنا ضروری ہے۔
اہم باتیں
حقائق کو سامنے رکھ کر اگر جائزہ لیں تو جو باتیں سمجھنے کی ہیں ، انہیں سب سے پہلے ذہن نشین کرلینا ضروری ہے۔
- سی ایس ایس کے ذریعہ حکومتی انتظامیہ کا حصہ بننا دراصل ملک اور حکومت کو بنیاد فراہم کرنا ہے۔ یہ مشینری حقیقت میں حکومت چلانے والی ہے۔ پالیسی سازی سے پالیسی کے نفاذ تک تمام تر کام ان کے پاس ہے۔ ملک کے ہر شعبہ اور وزارت کی کامیابی اور ناکامی ان کے ہاتھ میں ہے۔ لہٰذا اعلیٰ ترین صلاحیتوں کے حامل لوگ اس میں آئیں گے تو ملک اور قوم ترقی کریں گے۔
- حکومتی انتظامیہ کی اہلیت رکھنے والے لوگ ہی اس امتحان میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
- ایف اے / ایف ایس سی یا اے لیول کے وقت ہی فیصلہ کرنا چاہیے کہ آپ کو سی ایس ایس کی طرف آنا ہے یا نہیں۔
- سی ایس ایس کرنا دراصل میڈیکل اور انجینئرنگ سے زیادہ اہم بھی ہے اور مشکل بھی۔
- یہ سوچ بالکل غلط ہے کہ ایک دفعہ ضرور سی ایس ایس کا امتحان دینا چاہیے ۔ اگر آپ کے فطری جھکاؤ کے مطابق امتحان دینا درست ہے تو ضرور تیاری کرکے امتحان میں شامل ہوں۔
دس اہم نکات
زندگی کا سفر کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے آپ کی شخصیت کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ کہیں صلاحیت Abilityاور مہارت Skills کا کردار زیادہ ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر تینوں کا کردار اہم ہے۔ ذیل میں دس اہم نکات آپ کو بتائے جارہے ہیں جو اگر آپ میں معیاری سطح پر موجود ہیں یا کسی کمی کی صورت میں آپ مشق سے بہتر کرلیتے ہیں تو پھر آپ بہت آسانی سے سی ایس ایس کرسکتے ہیں۔
تخلیقی صلاحیت
انسان کے پاس سب سے اہم چیز اس کی تخلیقی صلاحیت ہے۔ کسی بھی کام کو بالکل نئے اور منفرد انداز میں کرنا، کسی بھی پیش آنے والی مشکل صورت حال کو غیر روایتی انداز میں کرنا تاکہ حالات کو بہتر طور پر سنبھالا جاسکے۔
فہم اور شعور
عملی زندگی میں وہ فرد اپنے لیے بہتر جگہ بنا پاتا ہے جو کسی بھی معاملے کو گہرائی سے سمجھ سکے۔ مشکل سے مشکل مسئلے کا حل اسی وقت ملتا ہے جب وہ اپنی تمام تر باریکیوں کے ساتھ ذہن نشین ہوجائے۔
جنرل نالج
ایک علم وہ ہے جو آج اپنی کتب بینی اور درس نشینی سے حاصل کرتے ہیں اور اس کا امتحان لیا جاتا ہے۔ اور ایک علم وہ ہے جو اس کے ساتھ ساتھ آپ کے دل و دماغ کا حصہ بنتا رہتا ہے۔ آہستہ آہستہ آپ اپنے گردوپیش اور کائنات سے بھی واقف ہوجاتے ہیں۔ اسی کو جنرل نالج کہتے ہیں۔ یہ علم جس قدر مضبوط اور وسیع ہوگا اسی قدر آپ کی تخلیقی صلاحیت بہتر اور فہم اعلیٰ ہوگا۔
وجوہات اور دلائل
زندہ اور باشعور انسان ہمیشہ کیا، کیوں، کب، کیسے اور کہاں وغیرہ کے سوالات اٹھاتا ہے ، اپنے آپ سے بھی اور دوسروں سے بھی ان کے جواب مانگتا ہے ۔ قرآں مجید بھی بار بار غور و فکر کرنے کے لیے کہتا ہے۔ اس سے وجوہات اور دلائل سامنے آتے ہیں ۔ علم کے اضافے اور معاملے کی تہہ تک جانے کا راستہ بھی یہی ہے۔ اس کو انگریزی میں کہتے ہیں ReasoningیاArgumentation۔
دماغی صلاحیت
انسانی قابلیت کا ایک اہم پہلو اس کی دماغی صلاحیت Cognitive Ability ہے۔ آلات اور ٹولز کا سہارا لیے بغیر مختلف ایشوز کو فوری طور پر حل کرلینا، آئیڈیاز کا آنا ، عبارت کا بننا ، درست الفاظ کا تیزی سے زبان پر چلنا، ان سب چیزوں کا آپ کی دماغی صلاحیت سے تعلق ہے۔
منطقی سوچ
متوازن شخصیت کا حامل فرد ہمیشہ ٹھہراؤ کے ساتھ ہر معاملے کو عقل کے پیمانے پر دیکھے گا۔ ایسا فرد محض اپنی ذات کو ہی سامنے نہیں رکھتا بلکہ معاشرے کے ہر فرد کو اہمیت دیتا ہے۔ اسی لیے تو اللہ نے اس میں عقل کی بنیاد پر سوچنے کی صلاحیت رکھی ہوتی ہے۔
رائے میں تسلسل
آپ کی سوچ ، فکر اور رائے میں تسلسل کا ہونا بہت ضروری ہے۔ جو فرد بار بار اپنی رائے بدلتا ہے یا اس کی سوچ میں تبدیلی آتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ آپ کی شخصیت بہت کمزور ہے۔ اداروں میں ایسے افراد کے لیے جگہ نہیں ہوتی۔
سنجیدگی
سنجیدگی بڑے انسانوں کا زیور ہوتا ہے۔ سنجیدگی ہی آپ کو اس مقام پر لاکھڑا کرتی ہے جہاں لوگ کئی سالوں کی محنت سے آتے ہیں۔ اس سنجیدگی سے مراد ہر وقت چہرے پر بارہ بجانا نہیں ہے بلکہ ہر کام کو پوری پوری اہمیت دینا ہے۔
مستقل مزاجی
آپ اچھے سے اچھا اور بڑے سے بڑا کام شروع کرلیں اگر اس میں مستقل مزاجی نہیں تو آپ کسی منزل پر پہنچ نہیں سکتے۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم یہ دی ہے کہ عمل تھوڑا ہو مگر مستقل ہونا ضروری ہے۔
زبان و بیان
آخری بات آپ کی زبان و بیان ہے۔ زبان کتنی اعلیٰ الفاظ کا انتخاب، عبارت بہاؤ اور روانی، محاورات اور ضرب الامثال کا استعمال، اشعار اور اقوال کا حوالہ کتنی خوبصورتی سے آئے اور بیان میں فکر کی پختگی اور معانی کیسی ہے، اصل بات کتنے سافٹ انداز میں اور کتنی مضبوطی سے کہی گئی ہے۔
اگر آپ ان باتوں کو پیش نظر رکھ سی ایس ایس کی طرف جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو میں اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ میرے اللہ کا قانون ہے کہ جو کسی بھی کام کی بنیادی شرائط پوری کرتا ہے اسے نتائج ملتے ہیں۔
اس کے بعد سی ایس ایس سے متعلق ٹیکنیکل چیزیں ہیں مثلًا عمر، شہریت، درخواست کا طریق کار، مضامین اور ان کا انتخاب، امتحان کی تیاری ، پیپر دینے کا طریقہ ، نفسیاتی ٹیسٹ، انٹرویو وغیرہ سی ایس ایس کے میرے دوسرے مضامین میں آئیں گی۔
Views: 5307