CSS 3 | How to Pass CSS Exam | Urdu

سی ایس ایس کی تیاری کیسے کریں

یوسف الماس

امتحان زندہ انسانوں کا ہوتا ہے۔ زندہ انسانوں اور چلتے پھرتے سایوں میں فرق امتحان سے   ہی ہوتا ہے۔ قابل افراد ہمیشہ امتحانات کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں ۔ امتحانات ہی قابلیت کے اظہار اور انسانیت کے وقار کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ امتحان کی سطح چھوٹی ہو یا بڑی، کامیابی ان کے لیے ہی ہوتی ہے جو اس کی نفسیات کو سمجھتے، پس منظر اہداف کو جانتے  اور طریق کار کو پہچانتے ہیں۔

سی ایس ایس کا امتحان پاکستان کے مشکل امتحانات میں سےایک ضرور ہے لیکن سب سے مشکل نہیں ہے۔ جو فرد سی ایس ایس کے پس منظر اور پیش منظر سے واقف  ہے اور ممتحن Examiner  کی سوچ اور انداز فکر و نظر کو سمجھتا ہے   وہ فرد بہت ہی آسانی سے اس امتحان کو پاس کرے گا۔ اگر کوئی فرد اس امتحان کو سمسٹر سسٹم کے   روایتی فائنل Terminal امتحان کی طرح لے گا یعنی ایک کتاب پڑھی یا لیکچر سنا تو سمجھ  لیا کہ بس علم کے سارے خزانے میرے ہاتھ آگئے جبکہ  دوسری جانب حقیقت یہ ہو کہ اگر اس کتاب یا لیکچر پر تبصرہ کیا جائے، عبارت اور الفاظ و معانی کا تجزیہ کیا جائے تو قابل ذکر بات ہی نہ نکل سکے۔ ایسی صورت حال میں کتاب ، مصنف اور آپ کا بہت توجہ سے پڑھنا اور سمجھنا اہم ہو گا ۔ آپ کی پڑھی ہوئی کتاب کے کسی بھی عنوان Topic  کو موجودہ حالات  پر اپلائی کرنے کا کہا جائے تو آپ وہیں ڈھیر  نہ ہو جائیں گے۔ بات دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں جانب جانا نہ شروع ہوجائے تو پھر سی ایس ایس بالکل بھی مشکل امتحان نہیں ہو گا۔

سب سے پہلا اور اہم ترین مرحلہ آپ کو سی ایس ایس کے مطابق اپنے ذہن کو تیار کرنا ہے۔ یہ کام جتنا اچھا ہو گااتنا ہی امتحان آسان ہوجائے گا۔ اگر آپ محض کتابیں پڑھ کر اس کام کو کرنا چاہتے ہیں تو انہونی کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا۔ ذہن سازی کے لیے آپ کو میرے دو مضامین پوری توجہ سے پڑھنے چاہیے۔     1۔ سی ایس ایس ایک تعارف۔    2۔ سی ایس ایس گروپس

ایک افواہ زبان زد عام ہے کہ سی ایس ایس کی تیاری بہت مشکل ہے۔ عام طالب علم اگر سی ایس ایس کا نام لے تو بیسیوں لوگ بیسیوں باتیں کرتے ہیں۔ حوصلہ افزائی کی بجائے اسے شدید  مشکل راستہ دکھا کر ساتھ میں باتوں کا تڑکا لگا کر مایوسی کی ایک دبیز چادر پھیلا دی جاتی ہے۔ مجھے اس رویے کی صرف یہی سمجھ آتی ہے کہ اپنی ناک سے آگے نہ دیکھ سکنے والوں سے اس سے زیادہ کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔ میں اپنے کونسلنگ میں 18 سالہ تجربہ کی  بنیاد پر آپ سے کہتا ہوں کہ پاکستان کا موجودہ سی ایس ایس امتحان ہر وہ  اسٹوڈنٹ  پاس کرسکتا ہےجو مناسب سطح کی1 تحریری اور 2انتظامی صلاحیت رکھتا ہو۔ آج کی3 دنیا سے واقف، 4 ابلاغی صلاحیت کا مالک اور  5 مناسب مطالعہ کرنے والا ہو۔ جس کی 6 سوچ میں پختگی اور7  افکار میں روانی ہو۔ البتہ روایتی تیاری کے لیے یقینًا آپ کو 8 منظم اور مرتب رہنمائی چاہیے ہوگی ۔ اس سلسلہ میں چند ایک باتیں قابل ذکر ہیں۔ انہیں توجہ سے سمجھیں اور عمل کریں تاکہ آپ کو سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

سی ایس ایس کا فیصلہ

سب سے پہلی اور بنیادی بات یہ ہے کہ  سی ایس ایس کا فیصلہ  کب ہوا، کن بنیادوں پر ہوا؟ دنیا میں تقریبًا ہر اہم کیریئر کا فیصلہ ایف اے/ ایف ایس سی / اے لیول کے دوسرے سال میں لازمًا کر لیا جاتا ہے۔ اس کے مطابق گریجوایشن میں شعبے  کا انتخاب اور یونیورسٹی کا فیصلہ بھی ہو جاتا ہے۔بالکل اسی طرح سی ایس ایس کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اسی مرحلے میں کر لینا چاہیے۔   مگر سی ایس ایس کرنے کا فیصلہ عام طور پر گریجوایشن میں یا اس کے بعد ہوتا ہے ۔ لہذا جس ترتیب سے اور جس سطح کی پڑھائی کی ضرورت ہوتی ہے اس میں کمی رہتی ہے ۔ اس سب کچھ کے باوجود محض وقتی باتوں ، خوابوں اور  خیالوں  سے نکل کر اپنی شخصی خصوصیات ، ذہنی رجحان، دلی جھکاؤ ، صلاحیتوں اور اقدار کو سامنے رکھ کر حقیقی معلومات پر مبنی فیصلہ کیا  تو میں سمجھتا ہوں کہ سی ایس ایس کو آپ با آسانی پاس کر لیں گےاور  اگلے تمام مراحل بھی آسان ہوجائیں گے۔

زبان و بیان

حکومت اور اس کا نظام بظاہر خاموش نظر آتاہے۔ اس کے پیچھے انتہائی قابل، خوبصورت  انداز بیان اور  مضموط ابلاغ  Communication کی بہترین صلاحیت رکھنے والے افراد کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں قومی اور سرکاری زبانیں الگ الگ ہیں۔ اسی طرح علاقائی زبانیں بھی بہت گہری جڑیں رکھتی ہیں۔ مزید یہ کہ ان تمام زبانوں کے اثرات بھی بہت دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں آپ کو کم از کم تین زبانوں پر اس طرح کا عبور ہونا ضروری ہے جو ان کی تہذیب و ثقافت اور بیان و آہنگ تک پھیلا  ہوا ہو۔

ہمارے آج کے اسٹوڈنٹ کا ایک مسئلہ یہ  بھی ہے  کہ اسے اردو نہیں آتی۔ محض چند جملے بول سکتا ہے ۔ اگر کسی موضوع پر بات کرنا پڑے تو اسے شدید مشکلات پیش آتی ہیں۔ پڑھنا اور لکھنا تو بہت ہی دشوار گزار کام بن چکا ہے۔ اس پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ اس کے لیے پہلی فرصت میں اردو اخبار، ناول، افسانے اور دیگر دلچسپی کی کتب کا مطالعہ شروع کریں۔ سی ایس ایس میں چند چیزیں لازمًا اردو میں ہی کرنا ہوتی ہیں۔ سی ایس ایس کی تیاری صرف انگلش کی بنیاد پر ناممکن ہے۔ بڑی تعداد میں فیل ہونے میں ایک وجہ    اردو میں موجودہ علم سے ناواقفیت ہے۔

انگریزی ہماری سرکاری زبان ہے ، امتحان بھی انگریزی     میں ہوگا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ  امتحان انگریزی کا   ہے۔ ایک پیپر انگریزی کا ہوگا۔ زبانوں کے پیپرز متعلقہ زبانوں میں ہوں گے جبکہ بقیہ تمام پیپرز انگریزی میں ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ  ہوا کہ آپ کو انگریزی پر مکمل عبور  ہونا ضروری ہے تاکہ آپ ہر موضوع پر روانی سے ٹیکنیکل بول بھی سکیں اور لکھ بھی سکیں۔ ہر مضمون کا انداز، الفاظ، جملے، محاورے، اصطلاحات وغیرہ مختلف ہوتی ہیں۔ دوران تیاری اس کا خیال رکھنا بہت اہم ہے ۔

آج اگر آپ طے کرلیں کہ آپ کو روزانہ انگلش اخبار ایک مکمل صفحہ ضرور پڑھنا ہے ۔ ایک دن ناغہ  آنے پر دوسرے دن تین صفحے  پڑھنے  ہیں تو پھر آپ امتحان تک ایڈوانس لیول  پر ہوں گے۔ تیاری کے دوران میں ہر مضمون کے لحاظ سے ذخیرہ الفاظ  Vocabulary کو مضبوط اور مستقل بنیادوں پر تیار کریں۔

پیپر پاس کرنے کے لیے صرف ذخیرہ الفاظ کا ہونا ہی کافی نہیں، آپ کوان کا استعمال بھی آنا چاہیے کیونکہ ایک جیسے معنی رکھنے والے تمام الفاظ کسی بھی جملے میں بلاتفریق استعمال نہیں کیے جاسکتے ۔ ہر لفظ کی اپنی جگہ ، مقام  Status  اور پس منظر ہوتا ہے۔اس کے لیے آپ کسی بھی کرنٹ افیئر پر پانچ سے چھے سطریں لکھیں اورپھر اس میں سے غلطیاں تلاش کریں۔ ان شاء اللہ کچھ دنوں کی محنت کے بعد آپ واضح فرق محسوس کریں گے۔

مضامین کا انتخاب

سی ایس ایس امتحان میں بہت ہی اہم اور مشکل فیصلہ مضامین کا انتخاب ہے۔ تیاری، پیپرز اور انٹرویو کا مکمل دارومدار اسی فیصلے  پر ہوتا ہے۔ اس انتخاب کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شروع میں آپ مضامین کا تعارف  Introduction ،   اپنا پس منظر اور رجحان سامنے رکھ کر ایک لسٹ تیار کرلیں۔ اب ان تمام مضامین پر کم از کم پچاس  صفحات ضرور پڑھیں۔ اگر آپ زیادہ مطالعہ نہیں کر سکتے تو کم از کم آپ میرے مضمون  (سی ایس ایس کے مضامین اور ان کی تیاری) ضرور پڑھیں۔  اس میں ہر مضمون کا مختصر اور جامع تعارف دیا گیا ہے ۔ اس مطالعے کے بعد ہر مضمون کے بارے میں آپ ایک واضح رائے بنا چکے ہوں گے۔ اب آپ تمام مضامین پر نظرثانی کریں۔  یہ مضمون کتاب کا آخری باب ہے ۔

 ابتدائی  مطالعہ

تمام لازمی اور اختیاری مضامین کو اپنی دلچسپی کے مطابق ترتیب دیں اور ہر مضمون کے کم از کم 50 صفحے کا مطالعہ کریں جس سے اس مضمون کے بارے میں آپ کے ذہن میں بہت واضح تصویر بن جائے۔ آپ اس قابل ہوجائیں گے کہ اس کے تمام    بنیادی اجزاء پر آسانی سے بات کرسکیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ مطالعہ تسلسل سے ہو اور رفتار آہستہ آہستہ تیز ہوتی رہے۔ یہ ٹاسک کم سے کم وقت میں ہونا ضروری ہے۔ اگر آپ اسٹوڈنٹ ہیں تو آپ دوران تعلیم اس کام کو مکمل کرلیں تو زیادہ بہتر ہے۔

گروپ سلیکشن

ابتدائی مطالعہ کے    بعد آپ کے لیے بہت آسان ہوجائے گا کہ آپ اپنے لیے گروپ کا فیصلہ کریں۔ اب آپ ایک بار پھر میرے مضمون ( گروپس کا تعارف) کا مطالعہ کریں۔ مضامین کے مطالعہ کے مطابق جو گروپ 80٪ اسکور کر رہا ہویا اس سے زائد ، اس کو پہلے نمبر پر، اسی طرح پھر دوسرا  اور تیسرا وغیرہ۔ اس مرحلے پر اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو آپ کسی کیریئر کونسلر سے ضرور مشورہ کریں تاکہ آپ کا یہ بنیادی فیصلہ 100٪ درست ہو۔

مضامین کا حتمی انتخاب

پہلے اور دوسرے گروپ کو سامنے رکھتے ہوئے اب آپ کومضامین حتمی طور پر سیلیکٹ کرنے ہیں۔ اس کام میں اِدھر اُدھر کے مشوروں سے اجتناب کریں۔ یہ انتخاب مکمل طور  پر آپ کے ابتدائی مطالعے اور ذہنی رجحان کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ یہ بات کہ فلاں مضمون آسان اور فلاں مشکل ہے۔ اس کا کسی دوسرے سے کیا تعلق؟ میرے لیے آسان دوسرے کے لیے مشکل ہوسکتا ہے۔ دوسرے کے لیے آسان میرے لیے مشکل ہوسکتا ہے۔مضامین کا انتخاب سو فیصد آپ کا اپنا ہونا چاہیے اور کسی تجربہ کار کیریئر کونسلر کے مشورے کے تحت کیا جانا چاہیے۔ پچھلے کئی سالوں کے ٹرینڈ کو ویکھتے ہوئے High Scoring Subjects  کی اہمیت ایک حد تک ہے اصل چیز آپ کی شخصیت ، صلاحیت اور رجحان ہے ۔

متعین مطالعہ

اب آپ تین ماہ کے لیے جم کر تمام لازمی اور  منتخب اختیاری مضامین کا مطالعہ شروع کریں۔ کسی بھی مضمون کی تیاری کرتے ہوئے ان چھے باتوں کو پیش نظر رکھیں:

  1. تاریخی پس منظر
  2. موجودہ دنیا میں اس کی حیثیت
  3. عملی اعتبار سے امکانات کی وسعت
  4. اہم  واقعات اور حادثات
  5. افکار و نظریات
  6. معاشرتی اثرات کی واضح تصویر

اپنی نوٹ بک میں مختصر مگر جامع نکات کی صورت میں نوٹس بنائیں ۔ یہ نوٹس معنوی اور زمانی لحاظ سے بنائے گئے ہوں گے تو ان کا زیادہ تر حصہ آپ کو یاد رہے گا ۔ امتحانات کے دنوں میں  تھوڑے وقت میں زیادہ تیاری ہو سکے گی ۔

اپنی نوٹ بک کو اس طرح ترتیب دیں کہ صفحے کے دونوں طرف مناسب حاشیہ یعنی مارجن دیا گیا ہو اور ہر بڑے موضوع اور ذیلی موضوع کے بعد کچھ سطریں خالی دی گئی ہوں تاکہ بعد میں اکیڈمی کے لیکچر ز اور دیگر ذرائع سے ملنے والی معلومات کو آپ  اسی جگہ لکھ سکیں۔

اکیڈمی میں داخلہ لیں

اپنے شہر میں یا کسی دوسرے قریبی شہر میں دستیاب بہترین اکیڈمی میں داخلہ لیں۔ وہ اکیڈمی جس کے کم از کم تین گروپ پاس آؤٹ ہوچکے ہوں اور اس کے پڑھانے والوں میں اچھے، سلجھے اور جہاں دیدہ افراد شامل ہوں۔ یہ اکیڈمی آپ کو 2 سے 3 ماہ کے لیے لینی ہے تاکہ آپ امتحان کے ٹیکنیکل ایشوز کو ٹھیک سے سمجھ سکیں۔ پیپر کو 3 گھنٹوں میں بہترین انداز سے کیسے مکمل کرنا ہے۔ اپنے ابتدائی  تین ماہ کے مطالعے کو ترتیب دینا ہے۔ اس میں پختگی بھی لانی ہے۔ جو کمزوریاں، غلط فہمیاں رہ گئی ہوں انہیں بھی دور کرنا ہے۔ کچھ تصورات ادھورے ہوں گے انہیں درست کرنا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں اگر آپ 3 ماہ کی گھر پر تیاری کیے بغیر  اکیڈمی گئےتو آپ اکیڈمی سے کچھ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اب امتحان سے تین  ماہ پہلے اکیڈمی چھوڑ دیں۔

حتمی تیاری

آپ نے تین ماہ ذاتی مطالعہ کرلیا اور 2 سے 3 ماہ اکیڈمی میں بھی تیاری کرلی اب آپ تین ماہ کے لیے ذہن کو آزاد چھوڑ کر کھلے ماحول میں روزانہ کی بنیادپر ہر مضمون کو مناسب وقت دیں ۔ تمام مضامین کو یکساں اہمیت دیں۔ تسلی رکھیں اب آپ ہر طرح کے پیپر کو بہت منفرد انداز سے حل کرلیں گے۔ یہ وہ وقت ہے کہ جب آپ ساری رات عبادت کرچکے ہیں اور سحری کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اب تو سحری کھانے ، روزہ رکھنے اور نماز پڑھ کر سورج کے نکلنے کا انتظار کرنا ہے۔ لہٰذا پانچ چھ مہینوں کی محنت کو ترتیب دینا ہے اور سمیٹنا ہے۔ اس کے لیے آپ کو پہلے سے زیادہ اعتماد اور پہلے سے زیادہ فریش رہنے کی ضرورت ہے تاکہ آپ اپنے تمام تر مطالعے کو اپنا علم بنا سکیں جو امتحان میں کام آئے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اکثر لوگ اس مرحلے پر آکر تھک جاتے ہیں۔

اخبارات و رسائل

پاکستان میں اخبارات و رسائل اور ریڈیو، ٹی وی چینلز کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ آپ کو ہر نوعیت اور دلچسپی کے عنوان پر کچھ نہ کچھ مل جائے گا۔ گو کہ  کم ایسے ہیں جو معیار، اقدار، روایات اور قومی وقار اور سوچ کا  پاس یا لحاظ رکھتے ہیں۔ تمام بڑے اداروں میں کچھ لکھاری ایسے ہیں جو آپ کی ضرورت ہیں ۔  آج کا میڈیا وقت بہت ضائع کرتا ہے۔ ایک سے دوسری اور تیسری چیز سامنے لاتا ہے۔ لہٰذا آپ کو وقت بھی مقرر کرنا ہے، موضوعات اور لکھاری بھی تاکہ آپ کم از کم وقت میں اپنا ہدف مکمل کرسکیں۔

میں آپ کو ایک فہرست دے رہا ہوں ، آپ اسے بڑھا سکتے ہیں لیکن کم نہیں کرسکیں گے۔

  • The World Times
  • Dawn
  • Political Resurgence
  • The Economist
  • جنگ
  • ایکسپریس، 92، دنیا ( لکھاری منتخب کرلیں)

نظریاتی کھچاؤ اور جھکاؤ

میڈیا ہو یا عمومی لکھاری ہوں ، نظریاتی کھچاؤ اور جھکاؤ آپ کو ہر جگہ ملے گا ۔ بڑے بڑے اسلام پسند لکھاری آپ کو گرتے نظر آئیں گے۔ اپنے آپ کو جدید ثابت کرنے کے لیے نجانے کہاں کہاں کی کوڑیاں لائیں گے۔ اسی طرح بڑے نامور لکھاری اور معروف سیکولر آپ کو اسلام پر درس دیتے نظر آئیں گے۔

پاکستان بنیادی اور قانونی طور پر ایک اسلامی ملک ہے۔ یہ چیز تبدیل ہونے والی نہیں ہے۔ البتہ معاشرے میں ہر جگہ اسلام پسندی اور اسلام بیزاری دونوں موجود ہیں ۔ بے عملی اور بدعملی بھی موجود ہے۔ سی ایس ایس کا امتحان لینے والے اور دیگر متعلقین میں بھی یہ تفریق موجود ہے۔ پیپر چیک کرنے والوں اور انٹرویو لینے والوں میں بھی نظر آئے گی۔

سوال یہ ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ آپ دوران تیاری سب کو پڑھیں اور اپنے اندرپختگی پیدا کریں۔ کسی بھی معاملے پر معلومات اور دلائل پر مبنی رائے بنانے کا فن سیکھیں۔ آپ کی رائے میں منطق Logic ، اصول، قانون ، روایت وغیرہ سب کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ تاریخی اعتبار سے حوالہ مضبوط ہو ۔ وہ سوالات جن کا انتظامی امور سے تعلق ہے یا ٹیکنیکل ہیں، ان میں اس طرح کی ڈسکشن کو نہ لائیں۔ انہیں انتظامی اور ٹیکنیکل بنیادوں پر ہی جواب دیں۔ البتہ اگر کسی سوال میں کوئی رائے پوچھی جاتی ہے یا ڈسکشن کا کہا جاتا ہے تو اس میں دونوں اطراف کے ہر طرح کے اہم دلائل کا احاطہ کریں اور پھر اپنی رائے دیں اور بہت واضح رائے دیں۔ جس میں وہ تمام خصوصیات موجود ہوں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔

مصنف اور کالم نگار / مضمون نگار/بلاگر

مصنف کتاب کی تصنیف سے قبل کتاب کی ضرورت، دائرہ کار، اپنے مخاطبین کے بارے میں اپنی رائے بناتا ہے۔ اس کے مطابق ابواب اور دیگر تقسیم کرتا ہے۔ پوری توجہ ، محنت اور فکری پختگی کے ساتھ ایک ایک چیز تیار کرنا ہے تاکہ اس کی کتاب پر بلاوجہ اعتراضات بھی نہ آئیں اور اپنے دائرے میں قبولیت عام بھی حاصل کرے۔ اس کے بعد ہر مصنف کا اپنا اپنا مقام ہے۔ اس کا علم، تجربہ، وسعت فکر و نظر ہر چیز الگ الگ ہے۔

کالم نگار  یا مضمون نگار حضرات کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر پیش آنے والے معاملات اپنے نقطہ نظر کے مطابق اور دستیاب معلومات کی بنیاد پر لکھتے ہیں۔ آج ایک رائے ہے، کل دوسری ہوسکتی ہے۔ اس کا زیادہ تر انحصار درپیش حالات و واقعات پر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک ہی واقعہ پر مختلف آراء ہوتی ہیں۔ بعض اوقات آپ حقائق کو ہی سمجھ نہیں پاتے ، یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔

تیسری چیز بلاگز ہیں۔یہ بھی اسی طرح اخبارات و رسائل کی طرح ہیں۔ فرق یہ ہے کہ یہ لوگ مستقل بالذات  Independent  ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سارے بڑی ذمہ داری سے کام کرتے ہیں۔ آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ۔ اس میں ان کا کردار بہت اہم ہے۔ ان میں کئی ایک  روزانہ بہت اچھا  بلاگ لکھتے  ہیں ۔ آپ کو اپنی ضرورت کے مطابق اردو اور انگلش کے اچھے بلاگز کو بک مارک کرلینا چاہیے اور ہفتہ وار دیکھتے رہنا چاہیے۔

ان تینوں یعنی کالم نگار ، مضمون نگار اور بلاگر  کو پڑھنا آپ کی مجبوری ہے۔ ان سے معلومات، حقائق اور حالات و واقعات کو سمجھیں۔ اہم بات آپ کا اپنا وژن، تجزیہ، حوالہ جات  References اور ان کی بنیاد  پر واضح رائے بنانا ہے۔ کسی بھی مسئلے پر دو + دو = چار ،کی طرح بات کرنے، لکھتے ہوئے قلم میں روانی آئے اور بولتے ہوئے ، بات سے بات بڑھتی چلی جائے۔ سننے والا آپ سے بات کرنا چاہے۔ آپ کے بعد بولنےکی گنجائش ختم ہوجائے۔

اردو اور انگریزی

جو  فرد ایم اے   انگلش کرتا ہے، اس کے بارے میں کہتے ہیں ، یہ بہت آسانی سے سی  ایس ایس کرسکتا ہے۔ یا جو اسٹوڈنٹ سی ایس ایس کرنے کی خواہش کا اظہار کرے تو اسے مشورہ دیا جاتا ہے   کہ وہ ایم اے انگلش کرے یا بی ایس انگلش کرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سی ایس ایس انگریزی زبان کا نام ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کے لیے ایک حد تک  آسانی ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہ  ان کا ذخیرہ الفاظ ، محاورہ، ضرب الامثال، اور زبان کی دیگر چیزیں بہت بہتر ہوجاتی ہیں۔ البتہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ انگلش کی  ڈگری کے بغیر کچھ کر نہیں سکتے۔ یاد رکھیں پاس ہونے والوں میں اکثریت ان کی ہوتی ہے جنہوں نے ایم        اے انگلش نہیں کیا ہوتا ۔

 آپ کو تیاری کرتے ہوئے اردو اور انگریزی لوازمہ / مواد سے   مدد لینی پڑے گی۔ چونکہ امتحان  انگریزی میں ہوگا لہٰذا تیاری والی کتب انگریزی میں ہوں تو بہت بہتر ہے لیکن اچھی کتاب اردو میں دستیاب ہو تو اسے بھی اتنی ہی توجہ سے پڑھیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ انگریزی کتاب لازمًابہت اچھی ہوگی۔ اردو انگلش اخبارات، رسائل کا بھی یہی حال ہے۔

سی ایس ایس کے تمام مضامین کا جائزہ بتاتا ہے کہ سائنسی اور ٹیکنیکل مضامین کو الگ کرکے دوسرے  تمام مضامین کی بہتر اور متوازن  Balance تیاری کے لیے آپ کو دونوں زبانوں میں لکھا جانے والا مواد لازمًا پڑھنا چاہیے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں کا مزاج ، انداز ، زاویہ فکر بالکل مختلف ہے۔ ایک ہی بات کے کئی پہلو آپ کے سامنے آئیں گے۔ کئی موضوعات تو آپ کو ملیں گے ہی اردو میں ، اور جب تک آپ ان کا ٹھیک سے مطالعہ نہ کریں اور تمام تر حاصل مطالعہ کی بنیاد پر متوازن سوچ نہ بنائیں تو آپ کے لیے مشکلات ہوں گی۔

مضامین

سی ایس ایس کی تیاری میں سب سے مشکل مسئلہ مضامین کی نفسیات کو سمجھنا ہے۔ ہر مضمون اپنا پس منظر ، تاریخ، پیش منظر اور اہداف رکھتا ہے۔ اگر آپ اس بات کو ٹھیک سے سمجھ گئے تو پھر آپ کے لیے نہ تو کوئی پیپر مشکل ہوگا اور نہ ہی انٹرویو۔ اس کے لیے میرا دوسرا مضمون پڑھیں( سی ایس ایس  کے مضامین اور ان كى تيارى ) ۔

بچیں اس سے

جو مشکل مشکل کی گردان کے بعد آپ کو ڈراتا ہو

جو  آپ کی قابلیت کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہو

جو  وقت ضائع کرتا ہو

جو بیمار ذہنیت رکھتا ہو

جو خود ناکام ہوا

جو  آپ سے حسد کرتا ہو


Views: 5503