آرٹ اور ڈیزائن - Art and Design
یوسف الماس
انسان کی تخلیقی صلاحیت اس قدر طاقت ور ہوتی ہے کہ جس کا مقابلہ تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ جدت پسندی کا اضافہ اور انفرادیت قائم رکھنے کا عزم اور حوصلہ انسان کی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہے۔فنون لطیفہ تاریخی اعتبار سے انسان کا ہم سفر ہے ۔ ہر دور کے انسان نے اپنی ضروریات، خواہشات ،احساسات اور دوسروں کے بارے میں اپنے جذبات کے اظہار کے لیے نئے سے نئے انداز اور الفاظ اختیار کیے۔
اہل لغت کے نزدیک آرٹ Art، ہنر /فن (Skill)اور تصورات کی ایسی دنیا ہے جو لوگوں کو خوبصورت الفاظ بھی دیتی ہے اور چیزیں بھی ۔ اس کو اگر مزید متعین کیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ذہن اور جذبات کا ایسا اظہار ہے جو ہماری تخلیق کو زبان دیتا ہے اور مافی الضمیر کو لطیف ابلاغ۔ یہ کام رنگ اور شکل سے بھی ہوتا ہے اور آواز اور حرکت سے بھی ۔ ان سب کا یا ان میں سے بعض کا درست استعمال ہی تخلیقی صلاحیت کا لوہا منواتا ہے ۔
آرٹ کی دنیا میں مالی آسودگی سے زیادہ تخلیق کی اہمیت ہے ۔ تخلیق نام ہے پڑھنے ، سننے اور دیکھنے والوں کے احساسات اور جذبات کو اپنی گرفت میں لینے کا ہے۔ یہ کام خوشی کے پیرائے میں ہویا غمی کے پیرائے میں۔ خوبصورتی کا اظہار ہو یا افسردگی کا۔ یہ تخلیق تحریر میں ہو یا پرفارمنگ میں ، موسیقی میں ہو یا ڈیزائن میں ، فنون لطیفہ میں ہو یا مصوری میں ، بنیادی مقصد ابلاغ ہی ہے تاکہ نقطہ نظر ، سوچ اور فکر دوسرے لوگوں تک منتقل ہو۔
افکار و نظریات اور احساسات و جذبات کو دوسروں تک موثر انداز میں منتقل کرنے کا بہترین طریقہ نظری ابلاغ ہی ہے۔ اس کے لیے کائنات کو بالکل دوسرے انداز سے دیکھنا پڑتا ہے۔ اور براہیمی نظر ہی اس کے اتار چڑھاؤ کو سمجھ سکتی ہے ۔ لہٰذا اس میں ایک بنیادی نکتہ اپنی فکر و نظر پر توجہ مرکوز کیے رکھنا ہے۔ دوسری بات ذریعہ ابلاغ کا تعین کرنا ہے کہ تحریر ہے، مصوری ہے ، فنون لطیفہ ہے یا کچھ اور ۔ یہاں ایک بات یاد رکھیں کہ ہوسکتا ہے کہ آپ فنی اعتبار سے بہت ہی مضبوط (Skilled)ہوں لیکن اگر آپ کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے خیالات کا باغیچہ نہیں ہے ، سنانے کے لیے واقعات کا تسلسل نہیں ہے اور استحکام، پختگی اور ثابت قدمی نہیںہے توپھر آپ اس راستے پر چند قدم چل کر تھک جائیں گے۔
اس کائنات میں ہر ذی شعور انسان تخلیقی صلاحیت رکھتا ہے۔ اللہ رب العالمین نے اپنی ہر تخلیق میں انفرادیت رکھی ہے ۔ لہٰذ اہر انسان کی صلاحیت کا رخ اور انداز دوسرے سے مختلف ہوگا ۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک اپنے ذہن میں آنے والے خیالات و افکار پر توجہ دیتا ہے اور کچھ کر گزرتا ہے جبکہ دوسرا انہیں اہمیت نہیں دیتا۔ اور بعد میں کہتا ہے کہ ”یہ تو میں بھی کرسکتا تھا۔“ یا بعض اساتذہ کسی کو کہتے ہیں کہ ”آپ نے کیوں نہیں کیا ؟ “ وغیرہ ۔
پس اگر طالب علم اپنی صلاحیتوں سے واقفیت حاصل کرلے اور اسی کے مطابق اپنا راستہ متعین کرے تو کامیابی کی شرح بہت اوپر چلی جائے گی۔ دوسری جانب طالب علم معاشرے کو بھی کچھ فراہم کرے گا۔ جو اپنی جگہ ایک مفیدکام ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر طالب علم اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو پہچانے اور اس کے مطابق اپنی زندگی کے سفر کو کامیابی اور کامرانی سے طے کرے۔
صلاحیت کی نشوونما
طلبہ و طالبات کے لیے ایک بہت ہی اہم سوال صلاحیت کی نشوو نما ہے۔ والدین بھی اکثر یہ سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ بچے / بچی کی صلاحیتوں کی نشوو نما کس طرح ممکن ہے۔میرا یہ ایمان ہے کہ اللہ رب العالمین نے جس انسان کو اس دنیا میں بھیجا ہے اور صحت کے اعتبار سے بالکل صحیح و سلامت ہے تو وہ ایک باصلاحیت انسان ہے ۔ اس کے بعد دو سوال بچتے ہیں ، پہلا ، صلاحیت ہے کیا؟ اور دوسرا ،اس کی نشوو نما کیسے ممکن ہے ؟ صلاحیت کی پہچان کے حوالے سے ایک دوسرے مضمون ( خود شناسی) میں ذکر کر چکا ہوں۔ یہاں صرف خداداد صلاحیتوں کی نشوونما کے حوالے سے چند اہم باتوں کا ذکر کرنا ضروری خیال کرتا ہوں۔
-میں باصلاحیت ہوں، میں صلاحیت رکھتا ہوں۔ بظاہر یہ بڑے عام سے جملے ہیں مگر حقیقت کے اعتبار سے انسان کی اندرونی کیفیت کا اظہار بھی ہیں اور کامیاب زندگی کا نکتہ آغاز بھی ہے۔ یہی اپنی ذات پر اعتماد اور پختہ یقین خداداد صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرتا ہے۔
-اپنے اندر کے انسان کی آواز کو توجہ سے سننا اور کسی بھی معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے ایک سے زائد تدابیر اور خوبصورت ترین اسلوب کے ساتھ پیش کرتا ہے ۔ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ ذہنی مشق(practice)اس میں بہتری لائے گی ۔
-اپنی کسی تدبیر کی ناکامی کا خدشہ دل میں نہ لائیں ۔ ایک ناکامی آپ کو سینکڑوں کامیابیوں کی راہیں دکھائے گی۔ لیکن اگر ناکامی کے خوف سے کوئی چیز سامنے نہیں آئے گی تو آپ چند قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے ۔
-پرانی اور نئی کتب ، رسائل و جرائد اور تحقیقی مقالوں کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔ اس مطالعہ سے آپ کا ہدف نئی سے نئی تدبیر کی تلاش ہے۔ نئے راستوں کی تلاش ہے۔ نئے رنگ اور آہنگ پیش کرنا ہے۔
-ذہنی کینوس پر ظاہر ہونے والے ہر آئیڈیااور سوچ کو روزانہ کی بنیاد پر اُسے محفوظ کریں۔ گاہے بگاہے اسے لکھتے رہا کریں۔ تمام جمع شدہ مواد میں مزید ترقی اور خوبصورتی کے بارے میں سوچتے رہا کریں۔
-روز مرہ کے معمولات سے ذرانکل کر آرام اور تنہائی میں کچھ وقت صرف کریں۔ یہ چیز آپ کے خیالات کو مجتمع کرے گی اور انہیں عملی شکل دےنے میں مدد دے گی۔
- اپنے مطالعے اور دلچسپیوںمیں تنوع (Variety)رکھیں۔ ذہنی زرخیزی اور اسکی آبیاری کے لیے یہ بہت ضروری ہے ۔
-گاﺅں گاﺅں اور شہر شہر کا سفر انسان کے اندرونی اور بیرونی منظر نامے کوبدل دیتا ہے۔ مختلف تہذیب و ثقافت، رسوم و رواج اور رویے اور برتاﺅ ذہنی آسودگی کے علاوہ نئے نئے در کھلتے ہیں۔
- باصلاحیت لوگوں سے دوستی اور تعلق آپ کی صلاحیت کو پروان چڑھائے گی۔
-بچے من کے سچے اور جدت کے پکے ہوتے ہیں۔ ایک ہی بات اور اندازا نہیں فوراً بور کردیتا ہے۔ وہ ہر لمحے نئی سے نئی چیز مانگیں گے۔ لہٰذا ن کے ساتھ کھیل اور بات چیت ایک طرف آپ کو بچپن کے تخیلاتی زمانے میں لے جائے گی اور دوسری طرف بہت سے نئے خیالات بھی مل جائیں گے۔
- لکھنا ایک ایسا کام ہے جو آپ کے تمام تر تخلیقی کام کو دوام بخشے گا اور پختگی بھی لائے گا۔ لہذا روزانہ لکھنے کی عادت ڈالیں۔
- آخری بات یہ ہے کہ اگر میں یہ کام اس طریقہ سے کرتا ہوں تو دوسرے اسے کیسے دیکھیں گے، کیا سوچیں گے اور کیا سمجھیں گے ؟
ڈیزائین
آپ اگر اپنے دائیں بائیں نظر ڈالیں جو کچھ آپ کو نظر آئے اسے اللہ تعالیٰ نے بنایا ہو یا کسی انسان نے ،ہر چیز میں آپ ایک مخصوص ڈیزائن پائیں گے۔ ہر چیز اپنی اپنی جگہ بڑی خوبصورت نظر آئے گی۔ اس کائنات کی کوئی چیزایسی نہیں جس میں ڈیزائن نہ ہو اور وہ ڈیزائن جس کے تمام اجزاءمیں ہم آہنگی اور ربط نہ ہو ،اسے سب کچھ کہا جاسکتا ہے مگر ڈیزائن نہیں ۔ یوں توآج ڈیزائننگ کے کئی ایک شعبے بن چکے ہیں مگر ان میں تین طرح کے ڈیزائن کا ذکر مفید رہے گا۔
۱-گرافک ڈیزائن
۲-انٹیرئیر ڈیزائن
۳-فیشن ڈیزائن
Views: 4234